مسکراہٹ
مسکراہٹ
25 اپریل، 2016
پچھلے دنوں مدتوں بعد بچپن کے ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ ہم سکول کے زمانے میں ہم جماعت بھی تھے۔ تب ان کی آواز بہت اچھی تھی اور وہ اتفاق سے کافی سریلے بھی تھے اس لئے سکول کی تقاریب میں ملی نغمے گایا کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کالج کے زمانے میں انہیں موسیقی سیکھنے کا شوق چرایا۔ جس کے بعد وہ کسی خاں صاحب کے باقاعدہ گنڈا بندھ شاگرد بن گئے۔
کیا اب بھی کچھ گاتے واتے ہو یا سب کچھ چھوڑ چھاڑ دیا؟ میں نے پوچھا! ان کے ہونٹوں پر کچھ دیر کے لئے ایک عجیب سی مسکراہٹ ابھر آئی ۔ پھر وہ چھت کی طرف گھور کر بڑ بڑانے لگے کہ ” ارے نہیں میں دوستوں، رشتہ داروں اور ہمسایوں کے اعتراضات کے بعد گانا بجانا کب کا چھوڑ چکا ہوں۔
لیکن سنا ہے کہ آپ کافی عرصہ بیمار بھی رہے۔ کیا اس دوران ان دوستوں، رشتہ داروں اور ہمسایوں نے آپ کی خیر خبر لی، کیا انہوں نے کبھی آپ سے یہ پوچھا کہ “آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟” میں نے پوچھا!
” نہیں، بالکل بھی نہیں بلکہ ان دنوں تو یہ سارے میرے سائے سے بھی کتراتے تھے” دوست کی مسکراہٹ اور بھی گہری ہوگئی۔
پھر آپ ان کی پرواہ کیوں کرتے ہیں؟ جو آپ کے دکھ درد میں کبھی بھی شریک نہیں رہے، انہیں آپ کی خوشی پراعتراض کرنے کا حق کس نے دیا ہے؟ میں نے پوچھا۔
وہ کچھ نہیں بولے بس چھت کو ہی گھورتے رہے۔ تب ان کے چہرے پر مسکراہٹ کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔
https://www.facebook.com/hasan.rizachangezi/posts/778744748922695?pnref=story