اُلاغ

اُلاغ 

1980 کی دہائی میں جب امریکی آشیرواد سے کامیاب ہونے والا ایرانی انقلاب اپنے زوروں پر تھا، تب ایران سے پڑھ کر آنے والے کچھ ملّاؤں نے پاکستان میں بھی اسی طرز کا انقلاب برپا کرنے کا نعرہ بلند کیا۔ پاکستان میں فقہ جعفریہ کے نفاذ کا مطالبہ بلاشبہ ایک ایرانی ایجنڈا تھا جس نے ضیاء الحق اور اسکے سعودی مربیوں کو کھل کر کھیلنے کا بہانہ فراہم کیا۔
اس دوران ایران پلٹ ملّاؤں نے حق نمک ادا کرنے کے لئے نہ صرف ایران کا پرچم بلند کئے رکھا بلکہ پاکستانی معاشرے کو ایرانی رنگ ڈھنگ میں ڈھالنے کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔ ان کی درآمد شدہ پٹاری میں فتوؤں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ انہی فتوؤں سے کام لیکر سپاہ پاسداران کے ان تربیت یافتہ ملّاؤں نے پہلی ہی فرصت میں ہزارہ گی دمبورے کو اسلام سے خارج کردیا اور فتویٰ صادر کردیا کہ دمبورہ بجانے اور اس کے سننے والے سر کے بل جہنم میں جائیں گے۔

مجھے یاد ہے کہ جب کسی محفل میں ایران سے ٹپک پڑنے والے ایک حجتہ الاسلام کی توجہ ایرانی جنگی ترانوں کی طرف دلائی گئی، جن میں مکمل مغربی آرکیسٹرا سے کام لیا جاتا تھا تو ملّا صاحب نے قرآن کی کئی آیتیں سنانے کے بعد فرمایا تھا کہ” یہ گانے نہیں بلکہ انقلابی ترانے ہیں، جن کے سننے سے نہ صرف ڈھیروں ثواب ملتے ہیں بلکہ ان ترانوں کو مسلسل سننے والا مرنے کے بعد سیدھا جنت میں جاتا ہے”
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب ملّا سے پوچھا گیا کہ “اگر دمبورے پر انقلابی ترانے گائے جائیں تو کیا دمبورہ حلال ہوگا، اور کیا اس کے سننے والے ثواب دارین حاصل کر سکیں گے؟” تو ملّا صاحب کا جواب تھا کہ “دمبورہ جہنم کا ساز ہے اس لئے وہ کبھی جنتی نہیں بن سکتا”
حق نمک ادا کرنے کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ روٹی روزی اور تنخواہ حلال کرنے کے لئے فتوؤں کا کاروبار اب بھی اپنے عروج پر ہے۔ پہلے دمبورے کو جہنم کا ساز کہا جاتا تھا اب ہزارہ گی کلچر کو مجرے کا نام دیا جاتا ہے۔
آج ایک بار پھر کچھ ملّا جو کسی جونک کی طرح میرے اور آپ کے خون پر پلتے ہیں، جو کام کے نہ کاج کے بلکہ دشمن سماج کے ہیں۔ ایک بار پھر ہماری ثقافت کو ختم کرنے اور ان ایرانیوں کی ثقافت ہمارے سر تھوبپنے پر کمر بستہ ہیں جو ان کو افغانی خر، بربری، کثیف اور الاغ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
آپس کی بات!

یہ ملّا اُلاغ نہ ہوتے تو کب کا سدھر چکے ہوتے اور سپاہ پاسداران کی غلامی کا طوق کب کا گردن سے اتار چکے ہوتے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.