ہزارہ کہاں جائیں؟

ہزارہ کہاں جائیں؟
محمد حنیف
مصنف، صحافی اور تجزیہ نگار

بی بی سی
1 دسمبر 2016

جکارتہ سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر بوگور کے قصبے میں تین سے چار ہزار پاکستانی ہزارہ موجود ہیں۔
جکارتہ سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر بوگور کے قصبے میں تین سے چار ہزار پاکستانی ہزارہ موجود ہیں۔

سنہ 1992 میں کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے بزرگ عبدالقیوم چنگیزی اپنے لوگوں کے جنازے اُٹھا اُٹھا کر تھک چکے تھے۔
اُنھوں نے ایک اِنٹرویو میں حکومت کو تجویز پیش کی کہ کیونکہ آپ ہمارے لوگوں کو مرنے سے بچا نہیں سکتے یا بچانا نہیں چاہتے تو ایسا کریں کہ ہمارا سب کچھ لے لیں، دُکانیں، گھر، کاروبار، گھر کا فرنیچر، گھر کے برتن تک لے لیں پھر مارکیٹ کی قیمت پر یہ سب بیچ دیں جو پیسہ مِلے اُس سے ایک بحری جہاز خریدیں اور ہم سب کو اُس میں بٹھا کر سمندر میں دھکیل دیں۔ دُنیا میں کوئی ملک تو ہو گا جو ہمیں قبول کرے گا۔
حکومت نے ظاہر ہے اِس مطالبے کو ایک دُکھی دل کی آہ سمجھ کر نظر انداز کیا لیکن ہزارہ برادری کے ہزاروں لوگ اُس جادوئی بحری جہاز کی تلاش میں نِکل چکے تھے۔ اپنے گھر بیچ کر، اپنی دُکانیں بیچ کر اور بعض دفعہ اُس رقم کے ساتھ جو باپ یا بھائی کی ہلاکت کے بعد حکومت نے اُنھیں دی تھی۔
پاکستان سے جان بچا کر دوسرے ممالک میں پناہ لینے کی کوششیں ہزارہ برادری کے کچھ لوگوں نے سنہ 2008 سے اسی وقت شروع کر دی تھیں جب ہزارہ زعما کو نشانہ بنانے کی کارروائیاں ہوئیں۔
زیادہ تر ملائشیا، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ کے راستے اِنسانی سمگلروں کو پیسے دے کر کشتی کے ذریعے آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ پہنچنے کی کوشش کرتے۔ 50 گھنٹے سے زیادہ کا سفر اپنی زندگی سے جوا کھیلنے کے مترادف ہے لیکن منزل پر پہنچنے والے جب اپنے زندہ رہنے کی خبر دیتے تو اور لوگ بھی یہ جوا کھیلنے پر تیار ہو جاتے۔
لیکن پھر آیا سنہ 2013۔ اگر اُس سے پہلے ہزارہ شیعہ چن چن کر مارے جا رہے تھے تو یہ سال شروع ہوتے ہی قتل عام شروع ہو گیا۔ جنوری اور فروری میں دو دھماکوں میں سینکڑوں جان سے گئے۔
جب ہزارہ برادری اپنے سینکڑوں جنازے لے کر احتجاج کو نِکلی، بڑے شہروں میں سڑکیں بلاک کیں تو اُن کا ساتھ دینے زیادہ تر اہل تشیع ہی نِکلے۔ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے ہمدردی جتائی لیکن زیادہ تر لوگوں نے جنازے نہیں دیکھے صِرف یہ شکایت جتائی کہ اِن ہزاروں نے ہماری سڑکیں روک کر ٹریفک کا نظام تباہ کر دیا ہے۔
سنہ 2013 کے اِس قتل عام کے بعد ہزارہ برادری کے ریلے کے ریلے ملک چھوڑنا شروع ہوئے۔ کوئی چھوٹے چھوٹے بچوں کو کندھوں پر اُٹھا کر جنگلوں میں چلا، کوئی بوڑھے ماں باپ کو سہارا دے کر کشتی پر بٹھاتا اور سینکڑوں نوجوان اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر اِس امید میں نکلے کہ اگر بچ گئے تو باقی گھر والوں کو بلائیں گے۔
زیادہ تر کی منزل اِنڈونیشیا اور ملائشیا تھی۔ اُمید یہ تھی کہ کشتی پر بیٹھیں گے اور اگر مچھلی کی خوراک نہ بنے تو آسڑیلیا یا نیوزی لینڈ پہنچ کر سیاسی پناہ لیں گے اور باقی خاندان کو کوئٹہ کی قتل گاہ سے نکالیں گے۔
ہزارہ برادری پر پاکستان کی زمین تو تنگ ہوئی تھی دُنیا کا دِل بھی چھوٹا پڑ گیا۔ 2013 میں آسڑیلیا نے اعلان کیا کہ کشتی پر بیٹھ کر آنے والے کو پناہ نہیں ملے گی چاہے وہ کم عمر بچہ ہو یا اکیلی عورت۔
اِس پالیسی پر عمل درآمد کرنے کے لیے پاکستانی اخبارات میں ایسے ایسے اشتہار چھاپے گئے جن کو دیکھ کر دورِ غلامی میں چھپنے والے وُہ اشتہار یاد آتے ہیں جو غلاموں کے مالک چھاپا کرتے تھے۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے میں اپنے آپ کو اگر رجسڑ کرانے میں کامیاب ہو جائیں تو آپ ریفیوجی بن جاتے ہیں اُس کے بعد ایک طویل اِنتظار
عبدالقیوم چنگیزی نے جس بحری جہاز کا خواب دیکھا تھا وہ چلنا بند ہو گیا۔ اُن کو جو اُمید تھی کہ دُنیا میں کم از کم کوئی ملک تو ہو گا جہاں پر قتل عام سے بچ جانے والے ہزارہ بچے ایک نئی زندگی شروع کر سکیں گے اُس ملک نے بھی اپنی سرحدیں بند کر دیں۔
پاکستان سے جانے والے ہزاروں خاندان اِس وقت اِنڈونیشیا اور ملائشیا میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ جکارتہ سے 100 کلومیٹر بوگور کے قصبے میں تین سے چار ہزار پاکستانی ہزارہ موجود ہیں۔ عالِم برزخ کا ذکر ہم نے مقدس صحیفوں میں پڑھا ہو گا اگر اِس دنیا میں عالِم برزخ دیکھنا ہو تو بوگور میں چند دِن گزاریں۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے میں اپنے آپ کو اگر رجسڑ کرانے میں کامیاب ہو جائیں تو آپ ریفیوجی بن جاتے ہیں اُس کے بعد ایک طویل اِنتظار۔ زیادہ تر ریفیوجی تین سے چار سال کا عرصہ اِس اِنتظار میں گزارتے ہیں کہ آسڑیلیا، نیوزی لینڈ یا امریکہ میں سے ایک ملک اُنھیں پناہ دینے پر تیار ہو جائے۔ کسی کو نہیں پتہ کہ کس کی باری کب آئے گی۔
اور اِنڈونیشیا میں ریفیوجی ہونے کا کیا مطلب ہے؟ آپ اپنی نوکری یا کاروبار نہیں کر سکتے۔ بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے۔ سرکاری ہسپتال نہیں جا سکتے۔ اگر کوئی حادثہ ہو جائے تو پولیس کے پاس نہیں جا سکتے۔ گاڑی یا موٹر سائیکل نہیں چلا سکتے۔
عالم برزخ سے شاید ایک راستہ جنت اور ایک جہنم کی طرف جاتا ہو۔ بوگور سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں اور اقوام متحدہ کے پاس پڑی ہوئی پناہ گزینوں کی فائلوں پر کِسی کا اختیار نہیں۔ اقوام متحدہ کا اپنا بھی نہیں۔
بوگور میں کچھ ہزارہ پناہ گزینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت چھوٹے بچوں کو تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ لیکن اِن کلاسوں میں بھی جو بچیاں اُستانیاں ہیں اُن کی ابھی خود سکول جانے کی عمر ہے۔

جان بچا کر پاکستان سے نکل آیے لیکن مشکلات ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتیں
جو لوگ اپنے گھر اور کاروبار بیچ کر گئے تھے وُہ اپنی بچت کے پیسے ختم کر بیٹھے ہیں۔ کئی باہر رہنے والے رشتے داروں کے محتاج ہیں، کِسی کے گھر والے پاکستان سے چھوٹی موٹی رقم بھیجتے ہیں۔ جن کا کوئی نہیں وُہ اقوام متحدہ کے کیمپ میں رہتے ہیں اور دو وقت کے مفت راشن پر گزارہ کرتے ہیں۔
ہزارہ پناہ گزینوں سے بات چیت کے دوران اکثر یہ شکایت سُننے کو ملی کہ ہمارے غیر ہزارہ دوست اکثر کہتے ہیں کہ تم ملک چھوڑ کر کیوں بھاگ رہے ہو یا تمھیں کون مار رہا ہے۔
بھاگ اِس لیے رہے ہیں کہ ہزارہ برادری کے لوگوں کو چن چن کر مارنے کاسلسلہ ضربِ عضب کے باوجود جاری ہے۔ مارا اِس لیے جاتا ہے کہ وُہ اہل تشیع ہیں۔ لیکن بوگور میں بھی اہل تشیع ہونا چھوٹا موٹا جرم ہے۔ مجلس نہیں کر سکتے، ماتم نہیں کر سکتے، نیاز چھپ کر کرتے ہیں۔

کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ اسے کب اور کہاں پناہ ملے گی
بوگور میں ایک 18 سالہ نوجوان جو وہاں اپنے خاندان کا سربراہ بھی ہے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ ہم چند لڑکے محرم کے دوران جکارتہ میں ایک مجلس سُننے گئے۔ مجلس جاری تھی کہ پتہ چلا کہ دوسرے فرقے والوں کا ایک گروہ دروازے کے باہر کھڑا ہو کر نعرے بازی کر رہا ہے۔ ہم پچھلے دروازے سے چھپ کر بھاگے۔ ایسا لگا جیسے پاکستان میں ہی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.