تو بھاگ گیا
۔۔۔تو بھاگ گیا
ہزارہ کمیونٹی کے متعلق سینئیر صحافی و تجزیہ نگار محمد حنیف کے کالموں کے سلسلے کی نئی قسط پیشِ خدمت ہے۔
نام لیاقت ہے شاید آپ نے ٹی وی پر دیکھا ہو۔ ساری زندگی میڈیا میں کام کیا۔ تھیٹر کیا، ڈاکومینٹری بنائیں، کوئٹہ ٹی وی پر ایکٹنگ کی پھر افغانستان میں ٹی وی شروع ہوا تو وہاں جاب کی۔ بچے بڑے ہونے لگے اور کوئٹہ میں حالات بھی خراب۔
دوست ایک ایک کر کے شہید ہونے لگے۔ عابد نازش ٹی وی ایکٹر تھا وہ گیا۔ فاران ہوٹل میں دوست بیٹھے تھے محمد انور اور ولایت حسین تھیٹر کے زمانے کے ساتھی تھے وُہ بھی ٹارگٹ ہو گئے۔ پھر کام پھیلنا شروع ہو گیا کراچی میں ’آغا جوس‘ والے تھے والد کو بھی مارا بیٹے کو بھی۔
دو بڑی بچیاں سکول میں تھیں۔ سکول والے کہنے لگے کہ بچوں کو سکول نہ بھیجو تو بہتر ہے اِن کی وجہ سے دوسرے بچوں کی جان کو بھی خطرہ ہے۔ امتحان آئے تو کہنے لگے سکیورٹی نہیں دے سکتے کراچی جا کر امتحان دو۔ بڑی مشکل سے کینٹ میں اِمتحان کا سینٹر بنوایا۔
میرے کام کے حالات بھی خراب ہو گئے۔ میرا باپ سندھ پولیس میں سپاہی تھا میں نے بھی ساری عمر مزدوری کی تعلیم بھی سکول کے بعد زیادہ تر پرائیویٹ اِمتحان دے کر حاصل کی۔ اب کام سے فارغ اور پھر علمدار روڈ والا پہلا بڑا دھماکہ ہوا۔
پی ٹی وی کوئٹہ میرا اڈا تھا وہیں پہ سارے میڈیا والے دوست بیٹھتے تھے اُنہوں نے کہا یہاں نہ آیا کرو ہمیں بھی مرواؤ گے میں نے جنرل مینجر سے کہا مجھے لِکھ کر دو۔ اُس نے خط لِکھ کر دیا کہ تم سیکورٹی کی وجہ سے ٹی وی سینٹر نہیں آ سکتے۔
کراچی میں لاہور میں دوستوں سے مشورہ کیا، مدد مانگی کچھ بھی نہیں بنا۔ سب نے کہا نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ۔
ساری زندگی کی جمع پونجی سے ایک گھر بنایا تھا بڑے شوق کے ساتھ اُسے بیچا۔ سنگاپور کا ویزا مل گیا۔ وہاں سے میرا خیال تھا اِنڈونیشیا پہنچ کر ریفیوجی ہو جائیں گے لیکن کشتی لینے کے لیے جنگل میں سے گزرنا پڑا۔ ایک بچہ گود میں ایک بیٹی کا ہاتھ پکڑا ہوا۔ گھٹنے گھٹنے تک کیچڑ بڑی مشکل سے کشتی تک پہنچے۔ کُھلے پانی میں ٹھنڈ بہت تھی۔
یہاں پہنچ گئے، اب ساڑھے تین سال ہو گئے۔ ریفیوجی ہیں کام کرنے کی اجازت نہیں۔ بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے اب اپنی مدد آپ کے تحت ریفیوجی بچوں کے لیے سکول بنایا ہے۔ اُس میں دونوں بڑی بیٹیاں پڑھاتی ہیں۔ مدیحہ اور ملیحہ۔
مدیحہ علی چنگیزی
ماں باپ نے ہم سے مشورہ نہیں کیا صِرف بتایا کہ ہم جا رہے ہیں دوسرے لوگ بھی جا رہے تھے۔ میرا خیال تھا باہر جائیں گے، نیا تجربہ ہو گا لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ کہاں جا رہے ہیں۔ میرے کوئٹہ میں پشتون، بلوچ بھی دوست تھے لیکن سکول تک۔ گھر آنا جانا نہیں ہوتا تھا۔ شادی سالگرہ وغیرہ پہ نہیں بلاتے تھے۔
جب ہم آ رہے تھے تو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ہمیں جنگل سے گزرنا پڑے گا۔ گھپ اندھیرا تھا اور مجھے سانپوں کے پھنکارنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں نے سوچا یہ ہمارے ساتھ والدین نے کیا کر دیا۔
جب تک ہم کشتی پر پہنچے ہم سب بھیگ چکے تھے سخت سردی تھی اوپر سے یہ بھی خطرہ تھا کہ پانی میں شارک مچھلیاں بھی ہو سکتی ہیں۔
یہاں پہنچ کر پہلا مہینہ تو روتی رہی کہ یہ کیا جگہ ہے ہم اپنا گھر چھوڑ کر یہاں کیوں آ گئے ہیں۔ میں اب وہ لڑکی نہیں رہی جو پاکستان سے چلی تھی۔
اب میں ہر چیز کو اور نظر سے دیکھتی ہوں، اپنے عقیدے کے بارے میں سوال پوچھتی ہوں کہ کیا میرا عقیدہ مجھے یہ سکھاتا ہے جو ہمیں مارنا چاہتے تھے اُن کا عقیدہ کیا ہے۔
کبھی کبھی یہ بھی سوچتی ہوں کہ میری زندگی ضائع ہو رہی ہے میں جب پاکستان سے چلی تو او لیول کر رہی تھی اور اب تین سال سے سکول نہیں گئی۔ یہ وہ سال ہیں جب میرے سارے دوست پڑھ رہے ہیں یہ ہمارے پڑھنے کے دِن ہیں۔
اِس تجربے نے مجھے ایک چیز سکھائی ہے کہ ہمیں زندگی کو ’فار گرانٹڈ‘ نہیں لینا چاہیے۔ یہ کِسی وقت بھی بدل سکتی ہے ایک دِن آپ گھر بیٹھے ہیں اور اگلے دِن پردیس میں۔
میرے دِل میں پاکستان کے لیے اب بھی بہت محبت ہے ہمیشہ رہے گی۔ جیسا اپنے گھر میں آرام ہوتا ہے ویسا تو کہیں نہیں ملتا۔ جب وہاں ہمارے لوگ مر بھی رہے تھے اُس وقت بھی مجھے لگتا تھا کہ ہم آزاد ہیں، ہم اِس ملک کے شہری ہیں۔
میرے جو دوست ہزارہ نہیں ہیں کوئٹہ میں اُن سے رابطہ رہتا ہے فیس بک پر۔ دوست تو نہیں بھولتے لیکن وُہ اب بھی پوچھتے ہیں تم ہزارہ لوگ پاکستان سے بھاگ کیوں رہے ہو؟
ملیحہ علی چنگیزی
میں چونکہ فیملی میں بڑی تھی اِس لیے ماں باپ نے میرے ساتھ ڈسکس کیا تھا لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ زندگی کیسی ہو گی یہ تو بالکل نہیں پتہ تھا کہ ایک اصلی جنگل میں سے گزرنا پڑے گا۔ گھٹنوں تک دلدل ہو گی لیکن اب پیچھے دیکھتی ہوں تو لگتا ہے کہ اِس سفر نے مجھے کافی بدل دیا ہے۔
جب میں کوئٹہ میں بستی تھی تو معصوم سی سیدھی سادی لڑکی تھی۔ اب مجھ میں کافی اعتماد آ گیا ہے اور میں کافی شیطان ہو گئی ہوں۔ پہلے سال تو بہت پریشان تھی لیکن اب ٹھیک ہوں۔
کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ یہ عمر تو میری خود سکول پڑھنے کی ہے اور میں ٹیچر بن گئی ہوں بچوں کو پڑھاتی ہوں۔ ورکشاپس کرتی ہوں۔ والنٹیئر کام ہے لیکن اِس سے وقت گزر جاتا ہے اور دوسرے لوگوں سے بھی مِل لیتے ہیں۔
پاکستان میرے خون میں ہے اور میں جہاں بھی جاؤں رہے گا۔ عید اور محرم پر کوئٹہ بہت یاد آتا ہے۔ لیکن ایک بات ہے پاکستان میں بھی لوگ محرم سے ڈرتے تھے یہاں بھی ڈرتے ہیں یہاں پر ہم محرم نہیں منا سکتے۔
ویسے زندگی کوئٹہ سے بہت مختلف ہے کوئٹہ میں تو بازار نہیں جا سکتے تھے باہر نہیں گھوم سکتے تھے کہ پتہ نہیں کب حملہ ہو جائے۔ فٹ بال کھیلنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا یہاں پر ہم خوب فٹ بال کھیلتے ہیں۔
لیاقت چنگیزی
بس اِس بات کا شکر ہے کہ بچوں کو ساتھ لے آیا۔ جو لوگ بچوں کو پیچھے چھوڑ آئے اُن کی زندگی بہت مشکل ہے۔ خود اِدھر پھنسے ہیں ، بچے اُدھر بڑے ہو رہے ہیں۔
پاکستانی دوستوں سے اِنٹرنیٹ پر گپ شپ رہتی ہے وُہ اب بھی کہتے ہیں اوئے پھینے تو پاکستان سے بھاگ گیا۔ ہم ہنس دیتے ہیں۔