ہزارہ کی واپسی
ہزارہ کی واپسی
ہزارہ برادری کے متعلق سینئیر صحافی و تجزیہ نگار محمد حنیف کے کالموں کے سلسلے کی پانچویں اور آخری قسط پیشِ خدمت ہے۔
نام حاجی شبیر ہے۔ علمدار روڈ پر موٹر سائیکلوں کا اپنا شوروم تھا۔ بڑا اچھا کاروبار تھا۔
سارا کزن پولیس میں تھا۔ دو کزن 2006 میں جو پولیس کیڈٹوں پر حملہ ہوا تھا اُس میں شہید ہوئے۔ پھر ایک چھوٹا بھائی پولیس میں اے ایس آئی تھا مقبول حسین اُس نے بھی یہ حالات دیکھے تو نوکری چھوڑ کر نکلا، کشتی میں بیٹھ کر آسٹریلیا پہنچ گیا۔
پھر ایک ہی سال میں بڑا بڑا دھماکہ ہوا لیکن میں نے کوئٹہ نہیں چھوڑا۔ آپ کو یاد ہوگا سنوکر کلب والا دھماکہ۔ وہ سنوکر کلب میرا اڈا تھا۔ اُس دِن میرے گھر والوں کی طبیعت خراب تھی تو میں کلب نہیں گیا۔
میرا سارا دوست اُس دھماکے میں چلا گیا۔ جعفر حسین، کیشیئر محمد حسین، وہاں کا چوکیدار سب میرے دوست تھے۔ سب چلے گئے میں نے لندن سے ایک سنوکر کا سٹک منگوایا ہوا تھا وہ سٹک بھی دھماکے میں جل گیا۔
وُہ سستا زمانہ تھا چار ہزار ڈالر دیا اور یہاں پہنچ گیا شوروم کا سامان سب کچھ سستا بیچ دیا۔ علمدار روڈ پہ جِتنی ہزارہ کی دُکانیں تھیں سب نے بند کیں، گھروں میں بیٹھ گئے یا بھاگ گئے۔
میں جب یہاں آیا تو آسٹریلیا جانے والی کشتی چلتی تھی۔ کوئٹہ کے پاکستانی لوگ تھے نام بدل کر کام کرتے تھے۔ بلنگ یہاں پہ ہوتی اور جب آسٹریلیا پہنچا دیتے تو پھر کوئٹہ میں اُن کو گھر والے پیسے دیتے۔
میں نے چھ دفعہ کشتی ٹرائی کی۔ ایک دفعہ کوئی 40 گھنٹے کشتی میں گزارے۔ لگتا تھا ابھی پہنچنے والی ہے آسٹریلیا۔ پھر اِنجن خراب ہو گیا۔ ایجنٹ نے ہمیں سیٹلائٹ فون دیا تھا۔ اُس سے ریسیکو والوں کو بتایا اُنہوں نے پکڑ کر واپس جکارتہ پہنچایا۔ وہاں پولیس نے ہمیں ہوٹل میں بند کیا مگر ہم سب بھاگ گئے۔
میں نے تین دِن بعد پھر کشتی ٹرائی کیا۔ اُس کا اِنجن آٹھ گھنٹے بعد خراب ہو گیا۔ پھر واپس۔ ایک دفعہ ایک ٹرائی گیا تو ٹریفک میں پھنس گیا، کشتی نکل گئی اور وہ کشتی آسٹریلیا پہنچ بھی گیا۔
پھر نئی پالیسی کا اعلان ہو گیا کہ ریفیوجی رجسٹر کراؤ اور یہیں بیٹھو۔ 2013 میں ریفیوجی ڈیکلیئر ہوگیا تھا تب سے یہیں بیٹھا ہوں۔ اب تو لگتا ہے یو این والے ہمارا نمبر بھی بھول گئے۔ میرے بعد فیملی والے آئے، چلے گئے، انڈر ایج آئے چلے گئے میں یہیں بیٹھا ہوں۔
کوئٹہ میں دو بیٹے، دو بیٹیاں ہیں۔ بس اللہ پر چھوڑا ہوا ہے۔ شوروم کا سارا پیسہ ختم ہوگیا۔ اب اُدھار پہ گزارہ چل رہا ہے۔ کبھی سوچتا ہوں یہاں آ کے غلطی کیا لیکن کرتا بھی کیا۔ اُدھر ہر گلی پر لوگوں کو مارتے تھے۔ ہمارے ساتھ علمدار روڈ پہ ایک الیکٹرانک والا تھا اُس کو مارا ، ڈاکٹر کو مارا، انجینئر مارا۔ اولمپئین باکسر تھا سید ابرار حسین اُس کو مارا۔ جب بڑے ختم ہو گئے تو سبزی والے کو، موچی کو بھی مارنے لگا۔
تین چار مہینے پہلے خیال آیا کہ بس بہت ہو گیا اگر موت کوئٹہ میں لِکھی ہے تو وہیں جا کر مریں گے۔ یو این والوں کو بتا دیا کہ بس اب میں واپس جاؤں گا، وہ ریکارڈ چیک کرتے ہیں، ٹکٹ وغیرہ کا بندوبست بھی کر دیتے ہیں۔
سب اِنتظام ہو گیا۔گھر والوں کو بتایا تو اُنھوں نے رو رو کر کہا کہ محرم کا مہینہ ہے لوگ کوئٹہ سے بھاگنے کی فکر میں ہیں، تم واپس آ رہے ہو۔ کیسے بد بخت اِنسان ہو۔ میں نے کہا نہیں میں آ رہا ہوں۔ پھر میری فلائٹ سے چند دِن پہلے ایک بس سے چار ہزارہ لیڈیز کو اُتار کر مارا عین محرم کے مہینے میں۔ پھر فلائٹ کینسل کی، اب یہیں ہوں۔ پھر ریفیوجی۔
یہاں پر اگر بندہ مر جائے تو اُسے واپس کوئٹہ بھیجنے میں تیرہ چودہ ہزار ڈالر لگتے ہیں۔ ایک فیملی کے ساتھ یہ ہوا اُن کا باپ مر گیا یہیں پہ دفنایا۔ بعد میں اُن کا کیس آسٹریلیا لگ گیا، چلے گئے۔ لیکن ساری عمر روئیں گے کہ باپ کو کہاں دفنا آئے کہ اُس کی قبر پر بھی نہیں جا سکتے۔
میرے ساتھ کچھ تھے جو باہر جاتے جاتے مچھلی کی خوارک بن گئے۔
بس آپ دُعا کرو کہ یہ وقت کِسی پر نہ آئے۔