آصف چھوٹو کی زندگی اور موت
آصف چھوٹو کی زندگی اور موت
پاکستان میں سرگرم شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی العالمی کی قیادت کی افغانستان منتقلی کے کچھ ہی عرصے کے بعد اس کے پاکستان میں موجود سربراہ آصف چھوٹو کی ہلاکت کا واقعہ سامنے آیا ہے۔
لشکر جھنگوی کے سربراہ آصف چھوٹو گذشتہ روز شیخوپورہ کے قریب ایک مبینہ پولیس مقابلے میں دو ساتھیوں سمیت ہلاک ہو گئے تھے۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ لاہور میں کسی اہم سرکاری ادارے کو ہدف بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔
پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں حالیہ دنوں میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے ہر بڑے واقعے کے پیچھے شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی کا نام آتا رہا ہے، جس کی سربراہی آصف چھوٹو کیا کرتے تھے۔
جماعت الاحرار، لشکر جھنگوی العالمی کالعدم تنظیموں میں شامل
سندھ کے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی کے مطابق رضوان عرف ناصر عرف آصف چھوٹو گاڑھی بلوچ کا تعلق کراچی کے علاقے لاسی پاڑہ سعود آباد سے تھا جبکہ ان کی پیدائش ضلع مظفر گڑھ تحصیل کوٹ ادو میں ہوئی تھی۔
آصف چھوٹو نے پرائمری تک تعلیم گاؤں سے، باقی تعلیم کراچی کے ایک مدرسے سے حاصل کی اور وہیں سے وہ فرقہ وارانہ شدت پسندی کی طرف مائل ہوئے۔
لشکر جھنگوی کا قیام 1996 میں عمل میں آیا تھا، جس کے بنیادی اراکین میں ریاض بسرا، ملک اسحاق، اکرم لاہوری، نعیم بخاری اور مطیع الرحمان شامل تھے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ مقابلوں میں ہلاک ہو گئے جبکہ اکرم لاہوری سزائے موت کے منتظر ہیں، جبکہ مطیع الرحمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں روپوش ہیں۔
کراچی میں فرقہ وارانہ واقعات میں لشکر جھنگوی کا نام اکرم لاہوری گروپ کے ساتھ منسوب تھا، لیکن 2005 میں حیدری مسجد اور امام بارگاہ علی رضا میں خودکش بم حملوں کے بعد آصف چھوٹو گروپ کا نام سامنے آیا۔ ان دھماکوں کا سرغنہ گل حسن بلوچ، آصف چھوٹو کا قریبی ساتھی تھا، جو 2013 میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گیا۔
آصف چھوٹو اور گل حسن بلوچ میں دوستی بعد میں رشتے داری میں تبدیل ہو گئی۔ گل حسن بلوچ کی بھانجی عارفہ کی آصف چھوٹو سے شادی ہو گئی۔ حیدری مسجد دھماکے کے بعد گل حسن بلوچ کی بھانجیاں لیاری کے علاقے سے اپنا گھر چھوڑ گئی تھیں۔ بعد میں گل حسن کی گرفتاری مانسہرہ سے عمل میں آئی تھی۔
گلشن اقبال میں مدینۃ العلم، عباس ٹاؤن، شکارپور امام بارگاہ اور جیکب آباد میں ماتمی جلوس میں حملے کی کڑیاں بھی آصف چھوٹو گروپ سے جوڑی گئی تھیں۔ سندھ حکومت نے ان کی گرفتاری پر 25 لاکھ جبکہ پنجاب حکومت نے 30 لاکھ رپے انعام رکھا تھا۔
آصف چھوٹو کی پہلی بار گرفتاری 2005 میں پنجاب میں عمل میں آئی اور سات سال تک جیلوں میں مقدمات کا سامنا کرنے کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد گذشتہ سال فروری میں ان کی گرفتاری کی خبر سامنےآئی۔ وہ کوئٹہ جا رہے تھے کہ ڈیرہ غازی خان سے انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس گرفتاری کے بعد سے لاپتہ وہ رہے اور ابمقابلے میں ان کی ہلاکت کی خبر سامنے آئی ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے سربراہ عامر رانا کا کہنا ہے کہ آصف چھوٹو لشکر جھنگوی کے جس گروہ کے سربراہ تھے وہ لشکر جھنگوی العالمی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ جب سے یہ اطلاعات آئیں کہ چھوٹو کو گرفتار کر لیا گیا ہے اس کے بعد گذشتہ ایک سال سے اس گروہ کی سرگرمیاں محدود تھیں۔ اس سے قبل 2012 سے لےکر 2015 تک دہشت گردی کی کئی کارروائیاں ان سے منسوب تھیں۔
’لشکر جھنگوی کو منظم اور متحرک کرنے میں ان کا بڑا کردار رہا ہے۔ موجودہ وقت لشکر جھنگوی کی قیادت تبدیل ہو گئی ہے، جو نئی قیادت ہے اس میں کراچی سے تعلق رکھنے والے شدت پسند شامل ہیں۔ یہ قیادت افغانستان میں موجود ہے اور وہاں سے اپنے حمایتیوں کے ذریعے تنظیم کو چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کے بیٹوں سمیت مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد آصف چھوٹو کی ہلاکت گذشتہ 18 ماہ میں پنجاب پولیس کی دوسری بڑی کارروائی ہے۔
پنجاب کے صوبائی وزیر رانا ثنااللہ ماورائے عدالت ہلاکتوں کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ سفاک، سنگدل اور خطرناک ملزمان ہیں، ایک ایک پر دو سے ڈھائی سو افراد کی ہلاکت کے الزامات ہیں اور یہ ملزم اس جرم میں گذشتہ دس سے 15 سال سے ملوث ہیں۔‘
انھوں نے کہا: ‘ایسے لوگو ں پر پولیس، فوج اور رینجرز کے جو اہلکار ہاتھ ڈالتے ہیں وہ قابل تحسین ہیں۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ان ملزمان کے پیچھے جاتے ہیں۔ ایسے ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر اس پورے عمل کو مشکوک بنا دینا درست نہیں ہے۔’