فرقہ واریت اب ماضی کا قصہ بن چکی، مسرور نواز جھنگوی
فرقہ واریت اب ماضی کا قصہ بن چکی، مسرور نواز جھنگوی
DW
- تاریخ 21.12.2016
- مصنف امتیاز احمد
حق نواز جھنگوی اپنے فرقہ وارانہ موقف کی وجہ سے مشہور تھے لیکن ان کے بیٹے مسرور نواز کے مطابق وہ خود اب اعتدال پسندی کے راستے پر چلنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ماضی کے شیعہ مخالف بیانات سے بھی دوری اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔
دسمبر میں مسرور نواز جھنگوی کی صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ پر کامیابی کے بعد پاکستان میں ہلچل مچ گئی تھی۔ ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ جھنگ میں شیعہ اور سنی کی تقسیم مزید گہری ہو جائے گی۔
انٹرنٹ پر مسرور نواز جھنگوی کی کئی ایسی ویڈیوز موجود ہیں، جن میں وہ اپنی تقریر کا آغاز ہی اس نعرے سے کرتے ہیں کہ ’شیعہ کافر ہیں‘۔ انتیس سالہ مسرور اس حکومتی لسٹ میں بھی شامل ہیں، جس میں عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے مشتبہ افراد کے نام شامل کیے جاتے ہیں۔
مسرور کے والد حق نواز جھنگوی شدید شیعہ مخالف رہنما تھے اور وہ فرقہ وارانہ تنظیم ’سپاہ صحابہ‘ پاکستان کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل تھے۔ حق نواز جھنگوی کو مشتبہ شیعہ عسکریت پسندوں نے 1990ء میں ہلاک کر دیا تھا۔
اس کے بعد حق نواز جھنگوی کے نام پر کالعدم تحریک لشکر جھنگوی کی بنیاد رکھی گئی تھی، جسے پاکستان کے بدترین فرقہ وارانہ حملوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔
مسرور نواز جھنگوی نے جھنگ میں نیوز ایجنسی روئٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے، ’’اب ذمہ داری میرے کندھوں پر آ گئی ہے۔ اب جھنگ کے تمام لوگوں کا میں ذمہ دار ہوں۔‘‘
جب ان سے جھنگ میں رہنے والی شیعہ کمیونٹی کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا، ’’میں ہر شخص کو انسان سمجھتا ہوں، میں نہ صرف جھنگ بلکہ پورے پنجاب میں امن چاہتا ہوں۔‘‘
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جھنگ کی گلیوں میں مسرور جہاں بھی جائیں، وہاں لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے اور ان کے ساتھ سیلفیاں اتارنے والوں کی بھی کمی نہیں رہتی
مسرور جھنگوی کی انتخابی مہم کے دوران انہیں کالعدم تنظیم اہل سنت والجماعت کی حمایت بھی حاصل رہی تاہم مسرور نے اس دعوے کو مسترد کیا کہ وہ اس جماعت کے رکن ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں مسرور جھنگوی مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام کے اتحادی بنے ہیں۔
ماضی میں مسرور جھنگوی خود بھی شیعہ مسلمانوں کو ’کافر‘ قرار دیتے رہے ہیں، اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ ان بیانات سے دوری اختیار کرتے ہیں اور ویسے بھی یہ کئی سال پرانے ہیں۔
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا انہیں ماضی کے ان اشتعال انگیز بیانات پر افسوس ہے تو ان کا مسکراتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔
جھنگ کے ایک ممتاز شیعہ رہائشی کا کہنا تھا کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران مسرور جھنگوی نے فرقہ واریت کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے خود کو اعتدال پسند کے طور پر پیش کیا ہے اور اسی وجہ سے انہیں کچھ شیعہ ووٹ بھی حاصل ہوئے۔
اس شیعہ شخصیت کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’یہ وقت ثابت کرے گا کہ مسرور جھنگوی کا ماضی سے دوری کا بیان حقیقی معنوں میں ہے یا پھر صرف سیاسی مقاصد کے لیے ہے۔‘‘
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جھنگ کی گلیوں میں مسرور جہاں بھی جائیں، وہاں لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے اور ان کے ساتھ سیلفیاں اتارنے والوں کی بھی کمی نہیں رہتی۔
مسرور جھنگوی نے علاقے کی ترقی کے لیے کئی وعدے کر رکھے ہیں۔ جھنگ میں ایک عیسائی آبادی والے علاقے کا دورہ کرتے ہوئے مسرور کا کہنا تھا، ’’جھنگ کے لوگوں کو ایک طویل عرصے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔‘‘
مسرور جھنگوی کے مطابق وہ جب سے منتخب ہوئے ہیں، جھنگ پولیس کی جانب سے انہیں ’ہراساں‘ کیا جا رہا ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انہیں اس وقت جھنگ سے نکلنا پڑا، جب پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے انہیں انٹرویو ختم کرتے ہوئے علاقہ چھوڑ دینے کو کہا۔