الٹی میٹم
الٹی میٹم
“ہم کسی صورت ان کافروں کو جلوس نکالنے نہیں دیں گے۔ یہ بے شک اپنے آپ کو ماریں، پیٹیں اور اپنا خون بہائیں۔ لیکن یہ کام وہ کسی چار دیواری میں کریں۔ انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ بازاروں میں نکلیں۔ یہ حکومت کہاں مر گئی ہے جو ان افراد کو روک نہیں پارہی؟ کیا حکمرانوں کو اس بات کا احساس نہیں کہ ان کافروں کے ان فضول جلوسوں کی وجہ سے جب بازار بند ہوتے ہیں تو کتنے غریبوں کا نقصان ہوتا ہے، اور جب ٹریفک میں خلل پڑتا ہے تو کتنے مریض ہسپتالوں تک پہنچنے سے پہلے مر جاتے ہیں؟ اور ۔۔۔۔۔۔ ؟”
مولوی کے منہ سے الفاظ کے بجائے انگارے نکل رہے تھے اور وہ مٹھیاں بھینچ بھینچ کر اور ہوا میں مکے لہرا لہرا کر خطاب میں مصروف تھے۔ مجمع سے گاہ نا گاہ اللہ اکبر کے ایمان افروز نعرے بلند ہورہے تھے۔
یہ جلسہ ایک بارونق بازار کے بیچ ہورہا تھا۔ مولوی صاحب ایک کالعدم تنظیم کے راہنماء تھے۔ جلسے کے آغاز میں ہی آس پاس کی دکانیں بند ہونا شروع ہوگئی تھیں جبکہ ٹریفک نے بھی اپنا رخ تبدیل کردیا تھا۔
“ہم پرامن لوگ ہیں، لیکن اس کا مقصد یہ ہر گز نہیں کہ ہم کمزور ہیں۔ ہمیں غریبوں کا خیال ہے جو گھر سے رزق حلال کمانے کے لئے نکلتے ہیں۔ لیکن ان کافروں کے جلوس کی وجہ سے وہ پورا دن کچھ کما نہیں پاتے، کیونکہ شہر کے سارے راستے بند کر دئے جاتے ہیں اور کسی کو آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں ان غریبوں کا کیا حال ہوتا ہوگا جو اگر دن میں مزدوری نہ کریں تو رات کو بھوکے سوجائیں؟”
نعرہ تکبیر!
اللہ اکبر
مجمع میں نعرہ گونجنے لگا۔
“میں آخری بار حکومت کو الٹی میٹم دے رہا ہوں کہ ان کافروں کو ان کی عبادت گاہوں یا چار دیواری تک محدود کرے، ورنہ میں غیر معینہ مدت کے لئے ہڑتال کی کال دوں گا جس کے دوران نہ صرف شہر بھر کے بازار بند رہیں گے بلکہ ٹریفک کا پہیہ بھی جام رہے گا۔”
نعرہ تکبیر
اللہ اکبر
مجمع میں ایک بارپھر نعرہ بلند ہونے لگا۔