وہ اب بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے

وہ اب بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے

19 جولائی 1986:

تاریخ کا ایک سیاہ دن جب نوجوان طالب علم رہنماء ابراہیم ہزارہ کو بے دردی سےقتل کردیا گیا۔ اس دن کو میں بھولنے کی کوشش کروں بھی تو ہرگز بھول نہ پاؤں۔ تب میں ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر تھا، کالجز میں نئے طلباء کے داخلے کا سلسلہ جاری تھا اور طلباء تنظیمیں نئے آنے والے طلباء کی رہنمائی اور انہیں اپنی تنظیم کی طرف راغب کرنے کے لئے ہرممکن وسائل سے کام لے رہی تھیں۔ وسائل کیا تھے ؟کچھ پلے کارڈز اور ایک دو بینرز جن پر نئے آنے والوں کے لئے خیرمقدمی کلمات لکھے ہوتے تھے۔ ایسے میں ایچ ایس ایف نے بھی کوئٹہ کے تمام کالجوں میں اپنا اسٹال لگا رکھا تھا تاکہ داخلے کے خواہشمندوں کی راہنمائی (کونسلنگ) کی جاسکے۔
18 جولائی کو ہی اس بات کا فیصلہ ہو چکا تھا کہ اگلے دن ہم سینئر دوست سائنس کالج، ڈگری کالج اور پولی ٹیکنیک کالج کا دورہ کریں گے اور سٹالز پر مصروف دوستوں کا حوصلہ بڑھائیں گے۔ غالباَ صبح کے دس گیارہ بجے کا وقت ہوگا، میں بعض سینئر دوستوں کی معیت میں ڈگری کالج کے کچھ طلباء کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھا جب کسی نے چیخ کر کہا کہ ایچ ایس ایف کے سٹال پر حملہ ہوا ہے۔ ہم سارے دوست تیزی سے اٹھے اور اس طرف دوڑھ پڑے جہاں ہلچل ہورہی تھی۔ تبھی میں نے ابراہیم کو لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا جسے فوراَ کچھ دوستوں نے سنبھال لیا۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ سینے پر رکھا ہوا تھا جو خون سے تر تھا۔ پھر میری نظر بھاگتے ہوئے آئی ایس ا و کے ممبر عباس پر پڑی جس کے ہاتھ میں ایک خنجر تھا جس سے خون ٹپک رہا تھا جبکہ چاقوؤں اور ڈنڈوں سے لیس قیوم سعیدی، قاسم، ضامن اور مختار سمیت امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کئی اراکین پاس کھڑے ہانپ رہے تھے۔ سارے دوستوں میں ایک کھلبلی سی مچ گئی۔ ایسے میں پتہ نہیں کس طرح کسی نے ایک گاڑی یا رکشے کا بندو بست کیا اور ابراہیم کو جو غنودگی کے عالم میں تھا ہسپتال کی طرف لے کر چلا گیا۔

 کچھ دیر بعد میں بھی سول ہسپتال کے شعبہ حادثات جا پہنچا جہاں ایچ ایس ایف کے کافی سارے دوست کھڑے رو رہے تھے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ابراہیم جانبر نہیں ہوسکا تھا کیونکہ قاتلوں نے خوب تاک کر عین اس کے سینے میں خنجر اتارا تھا۔
اس اسفناک واقعے کے بعد قاتلوں نے ملک سے بھاگنے کی بہت کوشش کی۔ ایسی ہی ایک کوشش کے دوران عباس سمیت اس بہیمانہ قتل میں ملوث تین قاتل اس وقت گرفتار کرلئے گئے جب وہ برقعہ پہنے ایک سوزوکی وین میں سریاب بس اڈے کی طرف فرار ہورہے تھے تاکہ ایران بھاگ سکیں۔
یہ حقیقت تو بعد میں جا کر کھلی کہ اس قتل کی منصوبہ بندی کئی دن پہلے کی جاچکی تھی جس کے لئے قاتلوں کو اسلحہ بھی مہیا کیا گیا تھا جبکہ گرفتاری کی صورت میں ان کے خاندانوں کی کفالت کا بھی مکمل وعدہ کیا گیا تھا۔ اس سازش کے پیچھے ان بیرونی عناصر کا ہاتھ تھا جو ایچ ایس ایف کو اپنے ایجنڈوں کی تکمیل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تصور کرتے تھے اس لئے ابراہیم کے قتل کے بعد بھی ان کی طرف سے ایچ ایس ایف کے اراکین پرکئی جان لیوا حملے کئے گئے۔ سائنس کالج میں ہونے والے ایک ایسے ہی قاتلانہ حملے کے دوران ہمارے ایک اور دوست کے پیٹ میں خنجر گھونپا گیا جو آئندہ کئی دنوں تک ہسپتال میں داخل رہا اور شدید زخمی ہونے کے باوجود خوش قسمتی سے بچ گیا۔
ابراہیم ہزارہ کے قاتلین کی صف میں شامل مرکزی ملزم عباس جو عباس تبتی کے نام سے معروف تھا اپنے ساتھی قاسم کے ساتھ برقعے میں فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا لیکن ضامن اور قیوم سعیدی کسی طرح فرار ہوکر ایران پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں ان دونوں “غازیوں” کا بھرپور طریقے سے استقبال کیا گیا۔ ضامن کو اس کی “خدمات” کا یہ صلہ ملا کہ اسے پہلی فرصت میں ایرانی پاسپورٹ پر یورپ بھجوا دیا گیا جہاں اسے ایرانی سفارت خانے میں مستقل ملازمت دی گئی جبکہ قیوم سعیدی وہ واحد ہزارہ تھا اور ہے جس کو بطور انعام  ایران کی شہریت  دی گئی۔ اطلاعات کے مطابق ضامن آج بھی کسی مغربی ملک میں ایرانی سپاہ پاسداران کے سایہ عاطفت میں زندگی گزار رہا ہے جبکہ قیوم سعیدی اب بھی ایران میں بیٹھ کر “اسلام کی خدمت” میں مصروف ہے۔ جہاں تک عباس اور قاسم کی بات ہے تو وہ آج بھی لوگوں سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں جبکہ مختار کا چھوٹا بھائی، علامہ ولایت جعفری آج کل کوئٹہ میں ولایت فقیہہ اور سپاہ پاسداران کے ایجنڈوں کی تکمیل میں ہمہ تن مصروف ثواب دارین کما رہا ہے۔
ابراہیم اٹھارہ،انیس سال کا ایک چھلبلا اور زندگی سے بھرپور نوجوان تھا جب اس کے سینے میں خنجر گھونپا گیا۔ وہ ایچ ایس ایف ڈکری کالج کا چیئرمین تھا۔ اسے میں نے کبھی خاموش بیٹھے نہیں دیکھا۔ وہ ہنسے ہنسانے والا اور ہر ایک کے کام آنے والا ایک زندہ دل نوجوان تھا۔ وہ اجتماعی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ اس کے بلند آہنگ قہقہے دوستوں کو زندگی کی نوید دلاتے تھے۔ وہ اپنے ہم عصروں میں طاق اور سب کی آنکھوں کا تارا تھا۔ وہ جدوجہد اور زندگی کی علامت تھا۔ تبھی تو معاشرے کے ناسوروں نے اسے بڑی بے دردی سے قتل کرڈالا۔
وہ عین جوانی میں قتل ہوگیا لیکن اس نے اپنی جان دے کر قاتلوں اور ان کے ایرانی سرپرستوں کے چہرے سے نقاب الٹ دیا جو مذہب کا لبادہ اوڑے دراصل ایرانی سپاہ پاسداران کے احکامات کی بجا آوری میں مگن تھے۔ اس کے قاتل اور ان کے سرپرست وہی لوگ تھے جنہوں نے اس واقعے سے ایک سال قبل 06 جولائی 1985 کے دن کوئٹہ کو لبنان بنانے کا وعدہ کرتے ہوئے کئی ایسی معصوم زندگیوں کے چراغ گل کردئے تھے جن کی برسی ہرسال بڑی خاموشی سے گزر جاتی ہے اور ان کی قبروں پر ماسوائے ان کے قریبی عزیزوں کے، دیا جلانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ لیکن ابراہیم کو آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔ تاریخ اسے ہمیشہ یاد رکھے گی۔ وہ آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہے اور یقیناَ ہمیشہ زندہ رہے گا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.