فرشتے
فرشتے
اس کے سٹور میں چوریوں کا سلسلہ مسلسل دراز ہو رہا تھا ۔ ملازم پرانے اور بھروسے کے تھے اس لئے ان پر شک کرنے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ کچھ چوریوں کی اطلاع تو اسے ملازمین نے ہی دی تھی جو ہر ہفتے کے اختتام پر اس کے ساتھ مل کر نہ صرف پورے ہفتے کی بِکری کا حساب لگاتے تھے بلکہ نئے مال کی خریداری کے لئے فہرست کی تیاری میں بھی اس کا ہاتھ بٹھاتے تھے۔ سٹور سے قیمتی سامان کی گمشدگی کا احساس بھی اسی دوران ہوا تھا۔ اسے فکر لگ گئی۔
“یہ ضرور ان اچکوں اور اٹھائی گیروں کی کارستانی ہوگی جو بھیڑ کا فائدہ اٹھا کر اپنی جیبوں یا نیفوں میں کوئی نہ کوئی قیمتی شے اڑس لیا کرتے ہیں۔ یا ہوسکتا ہے اس میں ان عورتوں کا ہاتھ ہو جو دکاندار کی نظریں بچا کر اپنے برقعوں یاپرس میں سامان چھپا لیتی ہیں۔ کچھ بھی ہو، ان چوریوں کا علاج تو ڈھونڈ نا ہی پڑے گا ورنہ کاروبار کا بھٹہ بھی بیٹھ سکتا ہے” اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ اگلے دن جب اس نے اس بات کا تذکرہ اپنے محلے کے امام مسجد سے کیا تواس نے چوری کے خلاف ایک لمبی چوڑی تقریر جھاڑنے کے بعد مشورہ دیا کہ ” تم ایسا کرو کہ اپنی دکان میں کچھ قرآنی آیتیں لکھوا کر آویزاں کرلو، جن میں قیامت کے دن چوروں پرنازل ہونے والے عذاب کا ذکر ہو۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح خوف خدا اور جہنم کی آگ سے ڈر کر چور اس گناہ سے تائب ہو جائیں گے اور یوں تمہارا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا”
اس نے ایسا ہی کیا اور اگلے ہفتے سٹور میں ایک نہیں بلکہ کئی بڑے بڑے طغرے آویزاں کردیئے جن میں سے ایک پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا “چوری سے بچیں کیونکہ فرشتے انسان کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں”لیکن نتیجہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات! چوریاں مستقل جاری رہیں اور ہفتے کے اختتام پر ایک بار پھر کئی قیمتی اشیاء گم پائی گئیں ۔ وہ ایک بار پھر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اب کیا کیا جائے؟ کیا کسی شخص کو خاص طور پراس کام کے لئے ملازم رکھا جائے جو چوروں پر نظر رکھے؟ نہیں! سٹور پر سارا دن خریداروں کا رش لگا رہتا ہے، وہ کس کس پر نظر رکھ سکے گا۔ اس نے اپنے خیال کی نفی کرتے ہوئے نیا ملازم رکھنے کا خیال دل سے نکال دیا۔
اگلے دن اس کی اپنے ایک پرانے دوست سے ملاقات ہوئی جو ایک معروف پلازہ میں ایک بڑے سٹور کا مالک تھا۔ باتوں باتوں میں اس نے دوست کو اپنی پریشانی بتائی ساتھ ہی امام صاحب کی تجویز کا بھی ذکر کیا۔ دوست اس کی بات سن کر بہت ہنسا۔
“ارے یار تم بھی کتنے سادھے ہو! اگر چوروں کو قیامت کا ڈر ہوتا یا ان پر قرآن کی آیتیں اثر کرتیں تو وہ چوریاں کرتے ہی کیوں؟ بلکہ جو لوگ سارا دن جھوٹ بول بول کر اور دو نمبر کا مال زیادہ منافع پر بیچ کر ہر سال حج اور عمرے پر جاتے ہیں، کیا انہیں نہیں معلوم کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ اور وہ لوگ جو یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں کا مال فریب کے ذریعے یا زبردستی ہڑپ کرکے کچھ رقم مسجد میں دے کرمولوی سے اپنے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کر وا لیتے ہیں، کیا انہیں نہیں معلوم کہ اس طرح وہ پاک صاف نہیں بن سکتے؟ اور وہ لوگ جو۔۔۔ خیر چھوڑیں ان باتوں کو۔ مجھے تو اس بات پر حیرانی ہو رہی ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی تم تذبذب کا شکار ہو۔ میری مانو تو جتنی جلدی ہوسکے اپنے سٹور میں کچھ کیمرے نصب کروالو، وہ بھی واضح جگہوں پر تاکہ سب کی آسانی سے ان پر نظر پڑ سکے۔ ہوسکے تو پرانے طغرے اتار کر ان کی جگہ نئے طغرے آویزاں کرلو۔” پھر دوست نے اسے طغروں پر لکھنے کے لئے کچھ جملے بھی بتادیئے ۔
اس نے ایک دو ملازمین کے ساتھ مل کر چھٹی کے دن یہ تمام کام خاموشی سے کرالئے۔ اگلے دن سٹور کھلا تو گاہکوں نے دیکھا کہ چاروں طرف دیواروں پر کیمرے لگے ہوئے تھے جن پر لگی سرخ بتیاں مسلسل جل بجھ رہی تھیں جبکہ کیمروں کے نیچے بڑے بڑے الفاظ میں لکھا ہوا تھا کہ “چوروں کے لئے انتباہ! چوری سے پرہیز کریں، ورنہ آپ کی ویڈیو نہ صرف پولیس کے حوالے کر دی جائے گی بلکہ اسے فیس بک پر بھی اپ لوڈ کر دیا جائے گیا”
سنا ہے کہ اب اس کے سٹور میں چوریوں کا سلسلہ رک گیا ہے ۔