سیلف پورٹریٹ
سیلف پورٹریٹ
05 مارچ، 2016
کوئی اس بات پر یقین کرے یا نا کرے لیکن مجھے سو فیصد یقین ہے کہ میں ایک ایسا نابغہ روزگار شخص ہوں جو اگر ہر دو گھنٹوں کے بعد فیس بک پر اپنا سٹیٹس اپ ڈیٹ نہ کروں تو نہ صرف یہ دنیا ایک عالم و فاضل شخص کی عالمانہ تحریروں سے محروم رہ جائے گی بلکہ فیس بک کے مالک ” میر ذاکر برق ” کا بھی دیوالیہ نکل جائے گا اور وہ کچھ ہی دنوں میں سڑکوں پر بھیک مانگتا نظر آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ میں روز وقفے وقفے سے نہ صرف حکمت اور دانائی سے بھرپور اپنی تحریریں فیس بک کی زینت بناتا رہتا ہوں بلکہ دوسروں کی طرف سے شیئر کی جانے والی ہر تصویر، تحریر اور ویڈیو پر ماہرانہ رائے دینا بھی میں نے اپنے فرائض منصبی میں شامل کررکھا ہے۔ مثلاََ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ کسی “فیس بکی دانشور” نے عقیدے کے موضوع پرایک انتہائی فضول قسم کی تحریر فیس بک پر ڈال دی تھی۔ صرف دو لائنیں پڑھتے ہی میں سمجھ گیا کہ لکھنے والا کس قماش کا بندہ ہوگا۔ اس لئے میں فوراََ علم کی دوکان کھول کر بیٹھ گیا اور اس موضوع پر ایسے ایسے فتوے دیئے کہ سب میرے مرید بن گئے اور مجھے الٹی سیدھی دعائیں دینے لگے
یہ بھی کل ہی کی بات ہے کہ “درّہ آجئی” کے کسی نام نہاد دانشورنے آبئی گی اور آجئی گی زبان کے موضوع پر ایک بہت ہی بچگانہ تبصرہ فیس بک پر ڈال دیا تھا۔ میرا تو خون ہی کھول اٹھا۔ ان درّہ آجئی والوں کی یہ ہمت، کہ یہ ترقی یافتہ مادری زبان پر پسماندہ آبئی گی اور آجئی گی زبان مسلط کریں!؟ یہی سوچ کر میں نے علم کا دریا بہاتے ہوئے اتنی عالمانہ تقریر لکھ ڈالی کہ درّہ آجئی کا وہ دانشور ابھی تک اپنی اس طفلانہ حرکت پر پچھتا رہا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ آئندہ اس موضوع پر لکھنے سے قبل وہ مجھ سے ضرور مشورہ کرے گا ۔
میری بہت ساری خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ میں موسیقی کے بارے میں بھی مکمل آگاہی رکھتا ہوں۔ لہٰذا اکثر بے سُرے گلوکاروں کو گائیکی سے متعلق آن لائن مشورے دیتا رہتا ہوں۔ اس لئے جوں ہی مجھے موسیقی سے متعلق کوئی مواد نظر آتا ہے، توں ہی میری فنکارانہ، گلوکارانہ اور موسیقارانہ رگیں ایک ساتھ پھڑکنے لگتی ہیں اور میں تبصرے کے ضمن میں راگ رنگ کی وہ محفل سجاتا ہوں کہ لوگ فوراََ رفو چکر ہوجاتے ہیں ۔ شاید”غش” کھا کر گر پڑتے ہونگے۔
میری صلاحیتوں کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ میں سیاست کے موضوع پر بھی اتنا ہی اچھا تبصرہ کرتا ہوں جتنا دیگر موضوعات پر۔ مجھے یقین ہے کہ اس میدان میں بھی میراکوئی ثانی نہیں اور چونکہ میری آدھی عمر سیاست میں گزری ہے اس لئے اس موضوع سے متعلق لکھنا بھی میرے بائیں ہاتھ کا کھیل رہا ہے۔ حالانکہ میں لکھتا ہمیشہ دائیں ہاتھ سے ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دیگر تحریروں کی طرح سیاسی موضوعات سے متعلق میری عالمانہ تحریریں بھی ہمیشہ لوگوں کے سروں پر سے ہی گزر جاتی ہیں۔
فلسفہ تو ہمیشہ سے میرا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ اس لئے میں اس میدان میں بھی اپنا لوہا منواتا رہتا ہوں اور جب جب مجھے فیس بک پر فلسفے سے متعلق کوئی تحریر نظر آتی ہے تب تب میں فوراَ میدان میں کود پڑتا ہوں اور پھر میں ایسا فلسفہ “چھوڑتا” ہوں کہ سارے فیس بکی فلسفی ناک پر رومال رکھ کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیس بک پر میرے حاسدوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے جو کبھی کبھار میری فلسفیانہ باتیں اوراقوال زرین پرانے زمانے کے کسی فلسفی کے نام سے منسوب کرکے فیس بک پر شیئر کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر ایک خاص کرم یہ ہےکہ میرا ذہن بہت ہی زرخیز ہے اس لئے اس میں ہروقت ایسے ایسے فلسفیانہ خیالات ابلتے رہتے ہیں جنہیں اگر میں تحریروں کی شکل دینے لگوں تو ہر ہفتے فلسفے کی کوئی معیاری کتاب چھاپ سکتا ہوں۔ لیکن کیا کروں کہ میری بے پناہ مصروفیات اور میری بے روزگاری آڑے آجاتی ہے اور میں یہ سوچ کر ٹھنڈی آہیں بھرنے لگتا ہوں کہ کاش میرا اپنا کوئی پرنٹنگ پریس ہوتا۔
مجھے شاعری سے بھی کافی دلچسپی ہے۔ عروض کا علم تو یوں سمجھئے کہ ہمیشہ میرے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہتا ہے۔ اس لئے نہ صرف میں خود انتہائی خوبصورت شاعری کرتا ہوں بلکہ میں نے کمنٹس میں کئی فیس بکی شاعروں کی اصلاح بھی کی ہے۔ میرے اشعار کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ کچھ لوگ انہیں علامہ اقبال ، فیض احمد فیض اور احمد فراز سے منسوب کرتے ہیں۔ جبکہ میں یہ سوچ کر خاموش رہتا ہوں کہ اگر میرے اشعار سے کسی کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو اس میں بُرائی کیا ہے؟ویسے بھی یہ سارا کام میں بلا معاوضہ اور صرف اللہ کی رضا کے لئے کرتا ہوں۔ لیکن معلوم نہیں کہ یہ فیس بکی شاعر مجھ سے اور میری صلاحیتوں سے اتنا کیوں جلتے ہیں کہ بغیر کسی پیشگی وارننگ کے مجھے “ان فرینڈ” بلکہ بالکل بلاک ہی کر دیتے ہیں۔
لوجی، نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا !
میرے اوپر اللہ تعالیٰ کا ایک خاص کرم یہ بھی ہے کہ میں نثر میں بھی بہت اچھا لکھتا ہوں اس لئے میں فی سبیل اللہ دوسروں کی تحریروں کی نوک پلک سنوارتا رہتا ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ نوآموز اور اناڑی لکھاری میرے ان رضاکارانہ اعمال سے کبھی خوش نہیں ہوتے بلکہ یہ کہہ کر الٹا مجھے ہی صلواتیں سناتے ہیں کہ میں نہ صرف ان کے معاملات میں خواہ مخواہ ٹانگ اڑاتا رہتا ہوں بلکہ اصلاح کے نام پران کی اچھی بھلی تحریروں کا ستیا ناس کردیتا ہوں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کیا ایسے جاہلوں سے کسی اچھے کام کی توقع کی جاسکتی ہے؟
آپ سوچتے ہوں گے کہ میں آخر ہوں کون؟ میں شاید آپ سے اپنا تفصیلی تعارف کرا بھی دیتا لیکن چونکہ میں نام و نمود اور سستی شہرت کے سخت خلاف ہوں اس لئے نہ صرف فیس بک پر اپنی تصویر دینے سے اجتناب کرتا ہوں بلکہ اپنا نام بھی ظاہر نہیں کرتا۔ دراصل میں بڑوں کی اس نصیحت پرعمل کرتا ہوں کہ “اگر دائیں ہاتھ سے نیکی کرو تو بائیں ہاتھ کو بھی اس کی خبر نہیں ہونی چاہئے”۔ اس لئے آپ کے لئے بس اتنا ہی سمجھ لینا کافی ہے کہ میں وہ نابغہ روزگار ہوں جو ہرموضوع پربلا تکان بول سکتا ہے، ہرمسئلے پرآنکھ بند کرکے لکھ سکتا ہے اور ہر سٹیٹس پرماہرانہ رائے دے سکتا ہے۔ وہ بھی فی سبیل اللہ۔
میں غرور بالکل نہیں کرتا
اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے مجھے بہت ساری خوبیوں سے نواز رکھا ہے۔ میری کچھ خوبیوں سے تو الحمدللہ آپ پہلے سے ہی واقف ہوں گے کیونکہ ان کا تذکرہ میں بار بار کرچکا ہوں۔ لیکن میرے اندر کچھ اور ایسی خوبیاں بھی ہیں جن کے بارے میں، میں نے آج تک کسی کو کچھ نہیں بتایا۔
مثلاَ ابھی اسی خوبی کو ہی لیجئے کہ جونہی میرے سامنے کوئی بندہ بات کرنے کے لئے منہ کھولتا ہے، میں یہ کہہ کر فوراَ اس کی بات کاٹ دیتا ہوں کہ” جی میں آپ کا مطلب سمجھ گیا، دیکھئے بات دراصل یہ ہے کہ۔۔۔۔۔!!!” اب وہ بے شک لاکھ چیخے چلائے کہ بھئی مجھے اپنی بات کہنے تو دیجئے! لیکن میں اس کی بات سنی ان سنی کرکے علم کے ایسے ایسے موتی لٹانے لگتا ہوں کہ اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔
میری ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ میری موجودگی میں آپ بے شک سوال کسی سے بھی کریں، جواب میں ہی دوں گا۔ اب آپ لاکھ کہیں کہ بھائی میں آپ کو جانتا تک نہیں اور نہ ہی میں آپ سے مخاطب ہوں، اس لئے آپ براہ مہربانی انہی کو جواب دینے دیجئے۔ لیکن ناں جی ناں! اب اتنی ساری کتابیں میں نے اس لئے تو نہیں پڑھیں کہ میں ہونٹ سی کر بیٹھا رہوں اور میری ہی موجودگی میں کوئی جاہل اوراحمق اناپ شناپ بکتا رہے۔
دوسروں کی ترجمانی کرنے میں تو میرا کوئی ثانی نہیں۔ مثلاَ اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں شخص کی یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی یا فلاں بندے کو یہ بات نہیں کرنی چاہئے تھی۔ تو اس سے پہلے کہ فلاں شخص کسی قسم کی وضاحت کرے، میں فوراَ اس کی ترجمانی کرنے میدان میں کود پڑتا ہوں اوربڑے ادب سے یہ کہہ کر اپنی بات کا آغاز کرتا ہوں کہ
“دراصل آپ فلاں شخص کی بات نہیں سمجھے۔ ان کے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ۔۔۔”
اس کے بعد تو میں فلاں شخص کی ایسی ترجمانی کرنے لگتا ہوں کہ خود اس کا باپ بھی ایسی ترجمانی نہیں کرسکتا۔
میری سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اتنی ساری خوبیوں کا مالک ہونے کے باوجود میرے اندر غرور نام کو بھی نہیں، کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ مغرور اور ریا کاروں کو پسند نہیں کرتا۔
میری کچھ اور خوبیاں
میں بچپن سے ہی جینئس واقع ہوا ہوں۔ تب مجھے پڑھنے سے زیادہ لکھنے میں دلچسپی تھی، اس لئے ہمسایوں کی دیواروں اور دروازوں پر ہمیشہ “اقوال زرین” لکھا کرتا تھا۔ مجھے وہ دیواریں زیادہ اچھی لگتی تھیں جن پر حال ہی میں رنگ ہوا ہوتا۔ میں سکول سے چاک اور گھر سے کوئلے چراتا اورموقع ملتے ہی محلے کی ہر نئی نویلی دیوار پر بزرگوں کے اقوال یا اشعار اور لطیفے لکھ دیا کرتا تھا۔
میری یہ عادت ابھی تک قائم و دائم ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ یہ عمل میں آج کل فی سبیل اللہ فیس بک پر دوہرا رہا ہوں اور ہر کسی کی دیوار (Wall) پر گل افشانی کرتا رہتا ہوں تاکہ وہ مجھ سے کچھ سیکھیں۔ لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ لوگ خوش ہونے کے بجائے مجھے گالیاں دینے لگتے ہیں (نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا)
میرا نظریہ بھی تمام نظریات کا نچوڑ ہے۔ یوں سمجھئے کہ میں نے تمام نظریات کے دریاؤں کو ایک کوزے میں بند کردیا ہے۔ اس لئے میں صبح کے وقت اسلامی پوسٹیں لگاتا ہوں، دوپہر کو قوم پرست بن جاتا ہوں اور شام کو ترقی پسبد۔
یہی نہیں، میں رمضان کے دنوں میں پکا مسلمان، محرم کے ایام میں سچا مومن اور یکم مئی کو ایک نظریاتی سوشلسٹ بن جاتا ہوں۔ اسی لئے رمضان کے بابرکت مہینے میں روزے کے فوائد، محرم میں نوحے اور مرثیے اور یوم مزدور پر مارکس اور لینن کے اقوال شیئر کرتا ہوں۔ میری لائبریری میں داس کیپیٹل اور نہج البلاغہ ساتھ ساتھ رکھے ہوئے ہیں۔ میں سال میں دو دو مرتبہ یوم پدر و مادر مناتا ہوں۔ پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کے اعلان کے مطابق اور دوسری مرتبہ حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے ایام پیدائش پر۔ یہی حال ویلنٹائن ڈے کا بھی ہے جب میں آدھا دن محبت سے متعلق اقوال زرین شیئر کرتا ہوں جبکہ بقیہ آدھا دن بہنوں کو راکھی باندھتا ہوں۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ میرے بعض حاسدین میری ان خوبیوں میں بھی کیڑے تلاش کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جس طرح بعض لوگ ہر جگہ نسوار اور پان کی پیک تھوکتے پھرتے ہیں اسی طرح میں بھی ہر جگہ اقوال زرین تھوکتا رہتا ہوں۔ میرے حاسدین بلکہ دشمنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ میرے پاس کہنے اور لکھنے کو کچھ بھی نہیں پھر بھی میں بلا تکان لکھتا اور بولتا رہتا ہوں۔ ان حاسدین کا یہ بھی پروپیگنڈا ہے کہ میں اپنی بات “میں” سے شروع کرتا ہوں اور “میں” پر ہی ختم کرتا ہوں۔ حالانکہ میں نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی خدمت کرتے گزاری۔ میں نے لوگوں کو شعور دیا، میں نے کئی اداروں کی بنیادیں رکھیں، میں نے ظلم کے خلاف سب سے پہلے آواز بلند کیا، میں نے لوگوں کے مسائل حل کئے، میں نے علاقے میں تعلیم کو فروغ دیا اور میں نے ہی لوگوں کو اچھے اور برے کی تمیز سکھائی۔ لیکن مجال ہے کہ میں نے کبھی بھی اپنی ان خدمات کا ڈھنڈورا پیٹا ہو۔
افسوس کہ لوگوں کو میری قدر ہی نہیں۔ انہیں میری یاد تب آئے گی جب میں اس جہان فانی سے منہ موڑ کر چلا جاؤں گا۔ لیکن اس وقت رونے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اب تو بس میری یہی دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ سب کو میری طرح عقل، علم اور خدمت خلق کا جزبہ عطا کرے۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین
ہماری ثقافت ہی ہماری پہچان ہے
یا علی مدد
دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہوجاؤ!
میں بھی کتنا بھلکڑ ہوں!
مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ آپ کو اپنی ایک اور خوبی کے بارے میں آگاہ کروں۔ قسم لے لیں کہ میں بالکل جھوٹ نہیں بول رہا۔ جھوٹ بولوں تو مجھے کوّا کاٹے۔
میں بندے کو ایک ہی نظر میں پہچان لیتا ہوں۔ اور جب پہچان لیتا ہوں تو اس کی تعریف یا تذلیل میں کبھی کنجوسی سے کام نہیں لیتا۔ ابھی پچھلے ہفتے کی بات ہے کہ مجھے اچانک احساس ہوا کہ عبدالمتین انتہائی اچھا آدمی ہے۔ اس لئے میں نے اپنی “خداداد صلاحیتوں” سے کام لے کراس کی شان میں قصیدے لکھنے شروع کئے، جن پر بڑی واہ واہ ہوئی۔ بات یہ ہے کہ میں عبدالمتین کی خوبیوں کا پہلی نگاہ میں ہی معترف ہو گیا تھا۔ لہٰذا میرا فرض بنتا تھا کہ میں اس کی ماورائی صلاحیتوں سے دنیا کو آگاہ کروں۔
اب اس میں میرا کیا قصور کہ کل جب مجھے موصوف کی “اصلیت” کا پتہ چلا اور میں نے اپنا انسانی اور دینی فریضہ ادا کرتے ہوئے اس کا سارا کچا چٹا لوگوں کے سامنے بیان کردیا تو کچھ حاسدین کو میری یہ جرآت بالکل پسند نہیں آئی اور وہ مجھ پر فتوے صادر کرنے لگے۔ حالانکہ میری اس حرکت پر بھی میری بہت واہ واہ ہوئی۔
میرے بعض دوستوں بلکہ حاسدین کا خیال ہے کہ میں توّے پر پکی روٹی کی طرح ہوں جس کے Head اور Tail کا پتہ ہی نہیں چلتا کیونکہ میں ایک دن کسی شخص کی تعریفیں کرکے اسے آسمان کا تارا بناتا ہوں تو اگلے دن اس کی ماں بہن ایک کرکے اسے منہ کے بل زمین پر دے پٹختا ہوں۔ ان حاسدین کا یہ بھی خیال ہے کہ میں کچھ سٹھیا گیا ہوں اس لئے کسی فلمی شاعر کی طرح کبھی ہیرو کی شان میں قصیدے لکھتا ہوں تو کبھی ولن کے لئے گانے لکھتا ہوں۔
اب ان سادہ لوگوں کو میں کس طرح سمجھاؤں کہ میں ایک “دانشور” ہوں جس کا کام ہی دانشوری جتانا ہے۔ سارا قصور تو ان کا اپنا ہے جو علم اور دانش کی باتیں سمجھتے ہی نہیں۔
میری دعا ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ ان سب کو میرے جیسے دانشوروں کی باتیں سمجھنے کی توفیق عطا کرے۔
آمین۔ ثم آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: مصنف کا اپنی تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔