عجیب مخمصہ ہے

عجیب مخمصہ ہے!

سوموار 8 اگست کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں رونماء ہونے والے دہشت گردی کے واقعے میں بلوچستان کے چوٹی کے وکلاء اور بعض میڈیا پرسنز سمیت 70 سے زائد لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس خود کش حملے کی ذمہ داری داعش اور جماعت الاحرار نے ایک ساتھ قبول کی۔ دوسری طرف حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کرتا دھرتاؤں نے بھی پرانے بیانات میں معمولی ترمیم کرکے اور ان پر نئی تاریخیں ڈال کر میڈیا کو جاری کئے، جن کا لب لباب یہی تھا کہ” یہ واقعہ بیرونی دشمنوں کی کارستانی ہے جو پاکستان اور بلوچستان کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتے” بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے تو دھماکے کی ذمہ داری فوراَ بھارتی خفیہ ایجنسی “را” پر ڈال دی جبکہ فوجی قیادت نے بھی اسے پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف سازش سے تعبیر کیا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں جب حکمرانوں نے اپنی نالایقیاں چھپانے کی غرض سے دہشت گردی کے واقعات کو نامعلوم افراد یا غیر ملکی ایجنسیوں کے سر ڈال کر تمام ذمہ داریوں سے بری ہونے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ اس سے قبل بھی بلوچستان بالخصوص کوئٹہ میں دہشت گردی کے جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں ان کے تانے بانے بھارتی اور افغان خفیہ اداروں سے جوڑکر ان پر مجرمانہ انداز میں مٹی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس بابت تو کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ پچھلے پندرہ سالوں میں کوئٹہ میں دہشت گردی اور قتل عام کا جو سلسلہ جاری رہا، اس کی روک تھام میں قانون نافذ کرنے والے ادارے یکسر ناکام نظر آئے۔ گلی کوچوں، شاہراہوں، بسوں اور عبادت گاہوں میں آئے دن معصوم بچّوں، عورتوں اور مردوں کا بے دردی سے خون بہایا گیا۔ لوگ اغوا ہوتے رہے، طالب علموں سے درسگاہیں چھینی جاتی رہیں اور لوگ اپنے اثاثے بیچ کر دیار غیر کی طرف کوچ کرتے رہے۔ لیکن کوئٹہ کی سڑکوں کو روز خون سے رنگین کرنے والے “نامعلوم” افراد کا کوئی سراغ نہیں ڈھونڈا جاسکا۔ ہاں اس دوران قاتل اور ان کے سرپست شہر کی سڑکوں پر دندناتے رہے، دھڑلے سے جلوس نکالتے اور جلسے کرتے رہے اور بیچ چوراہے کھڑے ہوکر نفرت پھیلاتےاور دھمکی آمیز تقاریر کرتے رہے۔ لیکن حکمران اور قانون نافذ کرنے والے ادارے آنکھ بند کر کے میٹھی نیند سوتے رہے۔ حد تو یہ کہ جب مارچ 2014 میں، پنجاب سے آئے اہلسنت والجماعت کے قائدین، صوبائی سیکریٹیریٹ اور گورنر و وزیراعلیٰ ہاؤس کے بغل میں وا قع ہاکی گراؤنڈ میں جلسہ کرکے کوئٹہ میں “ڈبل سنچریاں” بنانے پر خوشی اور فخر کا اظہار کر رہے تھے، تب بھی حکمران اور ریاستی ادارے ان واقعات میں بیرونی ہاتھ تلاش کرنے میں مصروف تھے۔
21 اکتوبر 2014 کی بات ہے جب صوبائی محکمہ داخلہ نے امن و امان سے متعلق ایک خفیہ مراسلہ جاری کیا تھا جس میں بلوچستان میں داعش کی سرگرمیوں اور لشکر جھنگوی اور اہل سنت والجماعت سے اس کے رابطوں کا انکشاف کیا گیا تھا۔ اس اہم خفیہ مراسلے کے منظر عام پر آنے سے کچھ دنوں کے لئے صوبے میں ایک کھلبلی سی مچ گئی تھی لیکن بعد میں اس وقت کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک کے تشفی آمیز اور وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کے وضاحتی بیانات کے بعد یہ موضوع داخل دفتر ہوگیا تھا۔
2015 کا سال اہالیان بلوچستان بالخصوص کوئٹہ کے باسیوں کے لئے اس لحاظ سے بہتر ثابت ہوا کہ اس دوران یہاں دہشت گردی کے واقعات میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی۔ بعض لوگ اس کا سہرا سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک کے سر باندھتے ہیں جبکہ کچھ حلقے اسے مقتدرہ کی “پالیسی شفٹ” اور کامیاب ضرب عضب کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کا عرصہ صوبے کے عوام کے لئے نسبتاَ پرامن رہا۔ حالانکہ اس دوران بھی ٹارگٹ کلنک کے واقعات ہوتے رہے اور ویرانوں سے بلوچ نوجوانوں کی لاشیں بھی ملتی رہیں۔ جبکہ فرقہ واریت کا پرچار کرنے والوں کو بھی کھلی چھوٹ حاصل رہی اور ان کے دھمکی آمیز اور نفرت سے بھرے بیانات بھی روزانہ اخبارات کی زینت بنتے رہے لیکن ساتھ ہی یہاں کے عوام کو اس بات کی بھی امید رہی کہ شاید اب صوبے اور شہر کی رونقیں دوبارہ لوٹ آئیں گی۔ لیکن پچھلے چند ہفتوں سے رونماء ہونے والے واقعات سے یہ امیدیں ایک بار پھر خاک میں ملتی نظر آرہی ہیں۔
سول ہسپتال میں وقوع پذیر ہونے والا حالیہ واقعہ ہر لحاظ سے دلخراش اور سفاکانہ ہے جس میں صوبے کے ایک انتہائی باصلاحیت اور تعلیم یافتہ طبقے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قتل عام پر نہ صرف صوبہ بلکہ پورا ملک سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ اگرچہ دہشت گردی کے اس انسانیت سوز واقعے کے بعد حکومت اور فوج نے مل کر ایک بار پھر “دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے” اور کومبنگ آپریشن کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن ایسا نہیں لگتا کہ عوام حکمرانوں کے ان بیانات سے مطمئن ہوں گے۔ وجہ یہ ہے کہ ماضی میں بھی کئی مرتبہ ایسے ہی بیانات سامنے آئے ہیں جن پر کبھی خلوص دل سے عمل نہیں کیا گیا۔ بطور مثال جولائی 2013 میں ہزارہ ٹاؤن خود کش دھماکے کے بعد جب وزیر اعظم نواز شریف، جنرل کیانی اور خفیہ اداروں کے سربراہوں کے ساتھ کوئٹہ تشریف لائے تھے، تب بھی انہوں نے کوئٹہ کو 20 بازاروں اور 20 راستوں والا شہر قرار دے کرمتعلقہ اداروں کو اس بات کی تاکید کی تھی کہ” یہاں کی سیکیوریٹی زیادہ مشکل نہیں، اس لئے اسے ایک ٹیسٹ کیس جان کر اس کے بارے میں منصوبہ بندی کی جائے!” لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ ان کی تاکید کا کوئی فائدہ نہیں نکلا اور معصوموں کا قتل عام حسب معمول جاری رہا۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ تب حالات کچھ اور تھے اور اس وقت ضرب عضب کا بھی آغاز نہیں ہوا تھا۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ان دنوں پاکستان میں داعش اور جماعت الاحرار کا بھی کوئی وجود نہیں تھا۔ لیکن اب تو یہ بات کافی حد تک واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان کی فرقہ وارانہ اور دہشت گرد تنظیمیں مذکورہ گروہوں کے ساتھ مل کر ملک بھر میں معصوم لوگوں کے قتل عام میں مصروف ہیں۔ ایسے میں ایک حیرت انگیز بات جس نے ملک بھر کے عوام کو عجیب مخمصے کا شکار بنا رکھا ہے، یہ ہے کہ اب بھی اہل سنت والجماعت جیسی فرقہ وارانہ تنظیمیں، جن کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ ان کا داعش جیسی تنظیموں سے رابطہ ہے، نہ صرف پاک آرمی کے حق میں جلسے جلوس کررہی ہیں بلکہ اخباری بیانات میں اعلانیہ طور پر اپنے آپ کو فوج کی وفادار ظاہر کر رہی ہیں۔
کیا وہ وقت نہیں آن پہنچا کہ پاکستان کے مظلوم عوام کو مخمصے سے نکالا جائے اور انہیں اس بات کا یقین دلایا جائے کہ حکمران اور مقتدرہ ملک میں امن و امان کی برقراری میں نہ صرف مخلص ہیں بلکہ ان کا کوئی منظور نظر بھی نہیں؟
اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ کومبنگ آپریشن حقیقی دہشت گردوں اور ان کے سیاسی سہولت کاروں کے خلاف کیا جائے تاکہ عوام کا اپنے اداروں پر اعتماد بحال ہو اور ایک پرامن معاشرے کی بھی تشکیل ہوسکے۔ ورنہ نوجوان شاعر محسن چنگیزی کے بقول
ایک ہی ہاتھ میں پتھر بھی ہے آئینہ بھی
اس تعلق میں تو نقصان بھی ہو سکتا ہے
نوٹ: یہ آرٹیکل پہلی بار نیا زمانہ میں شائع ہوا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.