بلوچستان؛ ایک یتیم بچہ

بلوچستان؛ ایک یتیم بچہ

ابھی کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے آٹھ اگست کے دلخراش سانحے کے زخم بھرے بھی نہیں تھے کہ پولیس اکیڈمی پر حملہ کرکے بلوچستان کے پیکر پر ایک اور گہرا گھاؤ لگا دیا گیا۔ پچھلے واقعے میں صوبے کے چوٹی کے وکلاء کو نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ حالیہ واقعے میں مستقبل کے محافظوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ حکمرانوں اور ریاستی اداروں نے حسب معمول اور عوام کے خدشات کے عین مطابق ان واقعات کی ذمہ داری بھارتی ایجنسی “را” اور افغان ایجنسی “این ڈ ی ایس” پر ڈال دی اور عوام کو بتایا کہ یہ سب سی پیک منصوبے کے خلاف سازش ہے۔

ارے بھائی کون سا سی پیک منصوبہ؟ کہیں اس منصوبے کی بات تو نہیں ہورہی جس کا تذکرہ صرف سیاسی رہنماؤں کے بیانات اور اخبار کی سرخیوں میں ملتا ہے؟ کیونکہ بلوچستان کی سرزمین پر تو اس منصوبے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے! البتہ یہاں کے عوام کی یہ شکایت روز بروز بڑھ رہی ہے کہ انہیں سی پیک کے نام پرمحض لوریاں دی جارہی ہیں جبکہ اصل کام پنجاب میں ہورہا ہے جہاں روز نئے موٹر ویز بن رہے ہیں، اورینج ٹرینیں چلائی جارہی ہیں اور میٹرو بسوں کا جال بچھایا جارہا ہے۔ اس لئے انہیں یہ بات ہضم نہیں ہورہی کہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے بلوچستان کے عوام کا خون بار بار کیوں بہایا جا رہا ہے ؟

ہمارے حکمرانوں اور بعض سیاست دانوں کا یہ بھی کہناہے کہ دشمن قوتیں پاکستان کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتیں اس لئے وہ بلوچستان میں دہشت گردی کرواتے ہیں۔ ایسے حکمرانوں اور سیاست دانوں سے سوال ہے کہ وہ بلوچستان میں کس ترقی کی بات کر رہے ہیں؟ پاکستان کے سب سے بڑے لیکن سب سے پس ماندہ صوبے میں ایسی کون سی ترقی ہورہی ہے جو یہاں کے عوام کو تو بالکل بھی نظر نہیں آرہی لیکن اس سے ہمارے دشمنوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں؟
کیا ان حکمرانوں اور سیاست دانوں کو بلوچستان کی یتیمی اور یہاں کے طول و عرض میں بکھری غربت کا اندازہ ہے؟ کیا انہیں معلوم ہے کہ بلوچستان کے جس ضلع سے سالانہ اربوں ڈالر کا سونا اور تانبا نکلتا ہے وہاں کے بچے اس لئے ننگے پاؤں پھرتے ہیں کیونکہ غربت کی وجہ سے ان کے والدین ان کے لیے جوتے نہیں خرید سکتے۔ جس گوادر کو ملک اور خطے کی ترقی کے لئے اہم سنگ میل قراردیا جا رہا ہے وہاں کے شہری پینے کے پانی کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ جس صوبے کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکہ کرکے “دشمنوں کی نیندیں حرام کی گئیں” وہاں کے بچوں کی اکثریت تعلیم کے نام سے بھی ناواقف ہے۔ جہاں کی سڑکیں کسی جنگ زدہ ملک کی سڑکوں کا نقشہ پیش کرتی ہیں اور جس کے دارالخلافے میں بھی ڈھنگ کا کوئی ایسا ہسپتال نہیں جہاں مریضوں کا بہتر علاج ہوسکے۔
آج صبح ٹیلی وژن پر شیخ رشید کا بیان سننے میں آیا جس میں وہ کوئٹہ پولیس اکیڈمی پر ہونے والے حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ” جب بھی پاکستان میں کوئی عوامی تحریک اٹھتی ہے، تب غیر ملکی طاقتیں اس تحریک کو ناکام بنانے کے لیے سازشیں شروع کردیتی ہیں۔”
لو جی کرلو گل! ابھی تو بلوچستان میں سی پیک منصوبے سے متعلق صرف وضاحتی بیانات ہی جاری ہورہے ہیں لیکن اسے ناکام بنانے کے لیے یہاں خون کی ندیاں بہانے کا سلسلہ پہلے ہی شروع ہوچکا ہے۔ ترقی پنجاب میں ہورہی ہے اور بے گناہوں کا قتل بلوچستان میں ہو رہا ہے۔ دھرنا اسلام آباد میں دیا جانے والا ہے اور سڑکیں بلوچستان کی لال ہو رہی ہیں۔
یہ سب دیکھ اور سن کر مجھے محلے کا وہ یتیم بچہ یاد آتا ہے جسے آئے دن بات بے بات پر مار پڑتی تھی۔ جمعہ خان کی مرغی چوری ہوتی توشامت اس یتیم بچے کی ہی آتی اور سب سے پہلے اسی کے کان مروڑے جاتے۔ عبدالقدوس کے گھر کی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹتا تو اس یتیم کو ہی ٹھڈے پڑتے۔ گلی کے بچے جب اللہ رکھا کے گھر کی گھنٹی بجا کربھاگ جاتے تو درگت یتیم بچے کی ہی بنتی جبکہ غلام سخی بھی گلی کے بچوں پر رعب ڈالنے کے لیے وقتا فوقتا سب کے سامنے اس کی ٹھکائی کرتا۔ بعض اوقات تو ارد گرد کے محلوں سے بھی کچھ غنڈہ نماء بچے آکر اس کی ایویں ای پھیٹی شینٹی لگا دیتے تھے۔ حد تو یہ کہ رمضو نائی جس نے ابھی ابھی کام سیکھناشروع کیا تھا، اسی یتیم بچے کو سامنے بٹھا کر اس کے بالوں پر نت نئے تجربے کیا کرتا تھا۔
کیونکہ آفٹر آل وہ ایک یتیم بچہ تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.