یہ انداز گفتگو کیا ہے؟
یہ انداز گفتگو کیا ہے؟
عمران خان مجھے کبھی بھی اچھے نہیں لگے۔ وہ تب بھی مجھے اچھے نہیں لگتے تھے جب وہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے اور ان کی بد اخلاقیوں کے قصے عام تھے۔ آئے دن ان کا کھلاڑیوں کے ساتھ پنگے لینا ایک عام سی بات تھی لیکن کئی بار ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے آٹو گراف لینے کے خواہشمند تماشائیوں اور اپنے پرستاروں کی بھی تھپڑوں اور ٹھڈوں سے تواضع کی۔ پھر جب کم و بیش تین دہائیوں کے بعد انہوں نے پاکستانی سیاست کی پر خار وادی میں قدم رکھا تو بہت سے دیگر لوگوں کی طرح مجھے بھی یہ امید نظر آنے لگی کہ شاید آکسفورڈ جیسی درس گاہ سے تعلیم یافتہ اس شہزادے کی آمد سے ہماری سیاست میں کچھ اچھی روایات قائم ہوں۔ لیکن ہماری امیدوں پر اس وقت اوس پڑھ گئی جب انہوں نے اس ادھیڑ عمری میں بھی وہی نوجوانی والا وطیرہ اپنا ئے رکھا۔
جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ وہ مجھے کبھی بھی اور کسی بھی زاویے سے قومی سطح کے سیاست دان نظر نہیں آئے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کرکٹ کےسحرسے کبھی آزاد ہی نہیں کر سکے۔ انہوں نے پاکستان کو ہمیشہ کرکٹ کا میدان اور سیاست کو کرکٹ کا کھیل سمجھا۔ ہمیں ان کی باتیں سیاسی کم اور کرکٹ کمنٹری زیادہ محسوس ہوئیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ کرکٹ ٹیم کا کپتان اور پارٹی عہدیداروں کو اس کرکٹ ٹیم کا حصہ تصور کیا۔ عوام کی حیثیت تو ان کے لئے ہمیشہ اس تماشائی کی سی رہی جس کا کام ہی تالیاں بجانا اور آٹو گراف لینے کے لئے قطار میں کھڑا ہونا ہے۔
ہمیں تو بجا طور پر اس بات کی توقع تھی کہ وہ ملکی سیاست میں ایک بہتر اسلوب اور سلیقہ متعارف کراتے ہوئے عوام کے حقیقی مسائل پر بات کریں گے۔ وہ دہشت گردی اور روز افزوں انتہا پسندی کے خلاف جہاد کا اعلان کریں گے، ملک سے غربت کے خاتمے کے لئے کوئی سنجیدہ منصوبہ بندی کریں گے، بلوچستان کی محرومیتوں کے خاتمے کی کوئی سبیل کریں گے اور پاکستان کی تمام اکائیوں کی یکساں ترقی کے لئے کوئی جامع پلان تشکیل دیں گے۔
ہم تو یہ بھی امید لگائے بیٹھے تھے کہ وہ سیاست کو بھانڈوں اور بڑھک بازوں کے قبضے سے چھڑا کر سنجیدگی اور متانت کی نئی روایتیں قائم کریں گے۔ لیکن افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور انہوں نے اپنی ساری توانا ئیاں حکومت کی وکٹیں گرانے میں صرف کردیں، وہ بھی ایمپائر کی انگلی کے بھروسے پر! انہوں نے اپنی “ٹیم” بھی ایسے کھلاڑیوں سے تشکیل دی جو اس سے قبل مختلف ٹیموں میں اپنی ناقص کارکردگی دکھا کر آؤٹ ہوچکے تھے یا بارھواں کھلاڑی بنا دیے گئے تھے۔
انہوں نے انداز بھی وہی اختیار کیا جو اس سے قبل پاکستانی سیاست دانوں کا خاصہ رہا ہے۔ وہی بڑھک بازی وہی تو تڑاخ! بلکہ اس میدان میں تو وہ اپنے پیش رو اور ہم عصر سیاست دانوں سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کار خیر میں عمران خان کو شیخ رشید کی مکمل معاونت حاصل رہی جوان کے عوامی جلسوں کی رونق بڑھانے اور کارکنوں کا خون گرم رکھنے کے لیے ہمیشہ مولا جٹ کا چولا زیب تن کیے رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہی شیخ رشید ہیں جن کے بارے میں کبھی عمران خان نے ارشاد فرمایا تھا کہ ” انہیں تو میں اپنا چپراسی بھی نہ رکھوں” جی ہاں یہ وہی شیخ رشید ہیں جو مخالفین پر بے ہودہ چٹکلے پھینکنے اور یاوہ گوئی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اگرچہ موصوف کی بدتمیزیوں اور ہرزہ گوئیوں کے قصے عام ہیں لیکن بعض اوقات پارلیمنٹ کے فلور اور عوامی اجتماعات میں وہ اپنے مخالفین کے بارے میں جس طرح بے ہودہ اور اخلاق سے عاری تبصرے کرتے پائے گئے ہیں، وہ اس قابل ہی نہیں کہ انہیں کسی مہذب فورم پر نقل کیا جاسکے۔
ایک بار مجھے بھی انہیں روبرو سننے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں۔ انہی دنوں کوئٹہ کے صادق شہید گراؤنڈ میں اپوزیشن پارٹیوں کا ایک جلسہ منعقد ہوا تھا جس میں شیخ صاحب بھی شریک تھے۔ اس دن اپنے جوش خطابت میں انہوں نے محترمہ کی شان میں جو “قصیدے” ارشاد فرمائے، انہیں سن کر مجھے سیاست سے ہی گھن آنے لگی۔ افسوس کی بات تو یہ تھی کہ جلسے کے شرکاء بھی موصوف کی ان “بد تمیزیوں” پر اعتراض کرنے کے بجائے تالیاں اور سیٹیاں بجا کر ان کا حوصلہ بڑھانے میں مصروف نظر آئے۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ عوام کو بھی ایسی باتیں سننے میں مزہ آتا ہے جن میں مخالفین کی بے ادبی کا سامان ہو۔ اب اسے اتفاق کہیے یا انصرام کہ وہی شیخ رشید آج کل عمران خان کے ساتھ مل کر ایک ایسے پاکستان کی تعمیر میں مصروف ہیں جسے وہ نیا پاکستان کہتے ہیں۔
میری ان گزارشات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میرا عمران خان یا شیخ رشید کی کسی مخالف سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق ہے یا پھر میں اپنے دل میں دیگر پاکستانی سیاست دانوں یا پارٹیوں کے بارے میں کسی قسم کا نرم گوشہ رکھتا ہوں۔ ہرگز نہیں! اس کے برعکس میری نظر میں ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کا بس ایک ہی مطمع نظر ہے کہ کسی طرح حکومت کے ایوانوں تک رسائی حاصل ہو تاکہ ملکی وسائل کی بندر بانٹ میں اپنا حصہ وصول کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں اور سیاست دانوں کے تمام تر دعؤں، وعدوں اور خوشنماء نعروں کے باوجود ملک کی حالت میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ سب نے ہاتھوں میں گنڈاسے پکڑ رکھے ہیں اور سارے ملک میں ان کی بڑھکیں گونج رہی ہیں۔ کوئی مخالفین کی ٹانگیں توڑ نے کی دھمکیاں دے رہا ہے تو کوئی ان کا حلیہ بگاڑنے کی۔ کوئی اپنے حریف کو بیچ چوراہے پھانسی پر لٹکانے کی بات کر رہا ہے تو کوئی آنکھیں نکالنے کی۔ کوئی سابق حکمرانوں کا پیٹ پھاڑ کراور حلق میں ہاتھ ڈال کر عوام کے پیسے وصول کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے تو کوئی انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے اور منہ کالا کرکے گدھے کی پیٹھ پر بٹھانے کا۔ لیکن جب ان کی اپنی باری آتی ہے تو سب کچھ بھول کر سابقہ حکمرانوں کی طرح دونوں ہاتھوں سے عوامی وسائل کی لوٹ مار شروع کر دیتے ہیں۔
مانا کہ ہر شخص کو اپنے مخالفین پر تنقید کا حق حاصل ہے، اور پھر سیاست دانوں کا تو کام ہی مخالفین کی ٹانگیں کھینچنا اور ان کے ہر کام میں کیڑے نکالنا ہے۔ لیکن یہ کام شائستگی سے بھی تو انجام دیا جا سکتا؟ کیاحریفوں کو”اوئے” کہہ کر پکارنا اور عوامی جلسوں میں ان کی “گیلی شلوار” کا تذکرہ کرنا لازمی ہے؟ کیا ایسا کرکے ہمارے سیاست دان نئی نسل کے لیے کوئی قابل تقلید مثال قائم کر رہے ہیں؟ زرا سوچیے کہ جب آج کے بچے اور نوجوان اپنے “محبوب” سیاست دانوں کو بھرے مجمعے میں یا ٹیلی وژن پر “اوئے نواز شریف، پاکستان تمہارے باپ کی جاگیر نہیں، نہ ہی پاکستان کی فوج تمہارے باپ کی فوج ہے” جیسے لہجے میں بات کرتے ہوئے سنیں گے تو ان کے ذہنوں میں سیاست اور سیاست دانوں سے متعلق کیا تاثر قائم ہوگا؟ یا جب شیخ رشید بلاول بھٹو زرداری کو بلو رانی کے نام سے پکاریں گے، عمران خان بلاول کو بچہ کہہ کر ان کا مذاق اڑائیں گے جبکہ بلاول بھٹو انہیں انکل یا چچا عمران کہہ کر مخاطب کریں گے اور ان سے ان کے باپ اکرام اللہ نیازی کے بارے میں پوچھیں گے، جب خواجہ آصف شیرین مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کا نام دیں گے اور جب بظاہر لبرل سوچ رکھنے والی پارٹیاں اور اخلاقیات کا درس دینے والے علماء بھی عمران خان کی سیاست پر تنقید کرنے کے بجائے ان کے جلسوں کو مجروں اور شرکاء کو طوائفوں اور زنخوں سے تشبیہ دیں گے تو ملک میں کس قسم کا سیاسی کلچر پروان چڑھے گا؟ شاید یہی وجہ ہے کہ آج کی نئی نسل سیاسی مباحث کا آغاز ہی گالی گلوچ سے کرتی ہے۔ گفتگو میں تہذیب کاتو نام و نشان بھی نہیں رہا۔ سیاسی رہنماؤں کو عجیب و غریب القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ کوئی پٹواری کہلاتاہے تو کوئی شیدا ٹلی۔ کوئی بے بی ہے تو کوئی چرسی۔ کسی کو مولوی ڈیزل کا خطاب ملا ہے تو کسی کو پادری کا۔ اور ان سب کی وجہ وہ سیاست دان ہیں جو ملک کو تبدیل کرنے کے بلند و بانگ دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن خود اپنا رویہ تک تبدیل نہیں کر سکتے۔ یہ وہ “رہنماء” ہیں جو عوام کی رہنمائی کرنے کے بجائے ان کے پیچھے چلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے سیاست کو جگت کا میدان بنا رکھا ہے اور جگتیں کر کر کےعوام کے ساتھ مخول کرنے میں مصروف ہیں۔
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے ۔ تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟