اہم خبریں 2018

بلوچستان اسمبلی میں ہزارہ برادری کے نو منتخب رکن ’غیر پاکستانی‘ قرار

  • 03 اگست، 2018۔

پاکستان
احمد علی کہزاد نے کہا کہ وہ پاکستانی شہری ہیں اور وہ اپنی شہریت کا دفاع کرنے کے لیے ہر دستیاب فورم سے رجوع کریں گے

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے نومنتخب رکن احمد علی کہزاد کو غیر پاکستانی قرار دیا گیا ہے۔

بی بی سی کے نمائندے محمد کاظم کے مطابق ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کی سربراہی میں قائم ایک کمیٹی نے ان کو غیر پاکستانی قرار دیا ہے جو کہ ہائی کورٹ کے حکم پر ان کی شہریت کے بارے میں چھان بین کررہی تھی۔

احمد علی کہزاد ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والی قوم پرست جماعت ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں۔

وہ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں کوئٹہ شہر سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 26 سے رکن منتخب ہوئے تھے۔

بلوچستان: اتحادی حکومت گرانے والی جماعتیں کامیاب

انتخابات سے قبل کاغذات نامزدگی کی چھان بین کے دوران اس حلقے سے ریٹرننگ آفیسر نے شناختی کارڈ بلاک ہونے پر ان کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کیا تھا۔

ریٹرننگ آفیسر کے فیصلے کے خلاف احمد علی کہزاد نے بلوچستان ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔

ہائیکورٹ نے ان کو انتخاب لڑنے کی اجازت تو دی تھی لیکن اس کے ساتھ ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کو ان کے شناختی کارڈ اور شہریت کے بارے میں چھان بین کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس کمیٹی نے بلوچستان ہائیکورٹ میں اپنی رپورٹ جمع کرائی ہے جس میں کہا گیا کہ نادرا نے احمد علی کہزاد کے کمپویٹرائزڈ شناختی کارڈ کی تصدیق نہیں کی ہے۔

پاکستان

بلوچستان ہائیکورٹ میں اس سلسلے میں احمد علی کہزاد نے جو درخواست جمع کرائی ہے اس پر فیصلہ 6 اگست کو متوقع ہے۔

جب کیمٹی کی رپورٹ پر بی بی سی نے احمد علی کہزاد کا رد عمل جاننے کے لیے رابطہ کیا تو انھوں نے کمیٹی کی سفارشات کو مسترد کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے 2013 کا انتخاب لڑنے کے علاوہ متعدد بار بلدیاتی انتخابات میں بھی حصہ لیا جن میں کسی بھی انتخاب کے دوران ان کی شہریت پر اعتراض نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد جب ان کے مخالفین کو یہ معلوم ہوا کہ وہ جیت جائیں گے تو انھوں نے ان کی شہریت کا معاملہ اٹھایا۔

احمد علی کہزاد نے کہا کہ وہ پاکستانی شہری ہیں اور وہ اپنی شہریت کا دفاع کرنے کے لیے ہر دستیاب فورم سے رجوع کریں گے۔

واضح رہے کہ عام انتخابات میں بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 26 سے احمد علی کہزاد نے پانچ ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر کے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار ولی محمد کو شکست دی تھی۔

شفیق مینگل: ’دہشت کی علامت‘ سے انتخابات تک

  • 19 جولائ 2018
شفیق مینگل
شفیق الرحمان مینگل نے ایچیسن کالج لاہور سے تعلیم کا سلسلہ ترک کر کے ایک دیوبندی مدرسے سے تعلیم حاصل کی

بلوچستان میں ایک زمانے میں دہشت کی علامت سمجھے جانے والے شفیق مینگل پرعزم ہیں کہ 25 جولائی کے دن عوام انھیں پارلیمان کا رکن منتخب کر لیں گے۔

ماضی میں ریاست کو شدت پسندی کے واقعات سے تعلق کی بنا پر مطلوب شفیق مینگل آنے والے انتخابات میں خضدار سے قومی اسمبلی کی نشست پر آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے بھائی اور والد 1988 سے انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔

سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے چھوٹے بیٹے شفیق مینگل پر بلوچستان میں مسلح دفاعی تنظیم کی قیادت اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں کے اغوا میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں جن سے وہ انکار کرتے رہے ہیں۔

شفیق الرحمان مینگل نے ایچیسن کالج لاہور سے تعلیم کا سلسلہ ترک کر کے مبینہ طور پر بنوریہ ٹاؤن کراچی کے ایک دیوبندی مدرسے سے بھی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد 1999 سے 2001 کے درمیان وہ شیخ زید اسلامک سینٹر میں بھی زیرتعلیم رہے تاہم وہ کسی بھی مدرسے سے تعلیم حاصل کرنے کی تردید کرتے ہیں۔

2008 اور 2009 میں مبینہ طور پر دفاعِ بلوچستان نامی مسلح تنظیم بنانے کے بعد انھوں نے 2011 میں خضدار تک خود کو محدود کر لیا تھا۔

توتک کی اجتماعی قبر

خضدار کے ایک سماجی رہنما اور وکیل نے اپنی زندگی کو ممکنہ طور پر لاحق خطرات کی وجہ سے شناخت خفیہ رکھنے کی درخواست کے ساتھ بی بی سی کو بتایا کہ فروری 2014 میں تُوتک سے اجتماعی قبریں ملنے کے واقعے کے فورا بعد کوئٹہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس نور محمد مسکانزئی کے ماتحت بننے والی ٹرائیبونل میں اجتماعی قبروں سے شفیق مینگل کی وابستگی کی تصدیق 20 سے زائد عینی شاہدین نے کی تھی۔

یہ رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ اس سلسلے میں شفیق مینگل کا کہنا تھا کہ ’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب میرے بارے میں ہائی کورٹ کی بنائی ہوئی ٹرائبیونل میں کچھ ثابت نہیں ہوا تو میں صفائی کیوں دوں؟ میرا نام اجتماعی قبروں میں جان بوجھ کر ایک سازش کے تحت شامل کیا گیا تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

بلوچستان میں سیاسی کی جگہ تعزیتی اجتماعات

خضدار کی اجتماعی قبروں پر ٹرائبیونل کی رپورٹ تیار

مینگل خاندان کی سیاسی رسہ کشی

خیال رہے کہ تُوتک میں اجتماعی قبریں ملنے پر اس وقت کے بلوچستان کے وزیرِ اعلی اور نیشنل پارٹی کے رہنما عبدالمالک بلوچ نے بھی مختلف اخباروں کو دیے گئے بیانات میں شفیق مینگل سے منسلک مسلح تنظیم دفاعِ بلوچستان کو موردِ الزام ٹھہرایا تھاـ

2008 میں بنائی گئی دفاعِ بلوچستان ایک مسلح جماعت ہے جس کا کام وڈھ، خضدار شہر اور آواران کی آبادی کا دفاع کرنا تھا لیکن کچھ ہی عرصے میں اس تنظیم نے مبینہ طور پر ایک ڈیتھ سکواڈ کی شکل اختیار کر لی تھی جس نے زیادہ تر بلوچ علیحدگی پسندوں اور اسی طرح کے ریاست مخالف جماعتوں کو ٹارگٹ کیا لیکن ساتھ ہی شفیق کی والدہ کے آبائی قبیلے قلندرانی کو بھی نہیں بخشا گیا جس کی وجہ سے مقامی لوگوں میں بھی اس تنظیم کے لیے خوف بیٹھ گیاـ

اس بارے میں شفیق مینگل سے جب بات کی گئی تو انھوں نے اس تنظیم سے لاتعلقی ظاہر کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘جب مسلح دفاع تنظیم بنی تھی تب ہی 2009 میں ہم نے اخباروں میں بیان شائع کروایا تھا کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ یہ ایک دہشت گرد تنظیم ہےـ اگر ہم اس طرح سے متنازع ہوتے تو کبھی اپنے علاقے سے کھڑے نہ ہوتےـ’

شفیق مینگل اور لشکر جھنگوی

توتک ٹرائبیونل کے سامنے یہ بھی کہا گیا کہ شفیق دراصل بلوچستان میں کالعدم شدت پسند تنظیم لشکرِ جھنگوی کے لیے کام کرتے ہیں۔

شفیق مینگل اور لشکر جھنگوی کے درمیان تعلق کا ذکر اس ٹرائبیونل کے بننے کے ایک سال بعد جنوری 2015 میں ایک بار پھر چھڑا جب سندھ کے شہر شکارپور کی امام بارگاہ پر حملے میں 60 افراد کی ہلاکت کے بعد بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی میں حفیظ بروہی کا نام سامنے آیاـ

اس کے بعد پولیس کے ایک تحقیقاتی افسر نے اپنے بیان میں کہا کہ خودکش بمبار کو افغانستان سے وڈھ اور وہاں سے شہداد کوٹ کے راستے شکارپور پہنچایا گیا تھا اور اس عمل میں شفیق مینگل کا نام سامنے آیاـ

اس بارے میں بی بی سی کی طرف سے کیے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے شفیق مینگل نے خود پر لگائے گئے تمام الزامات کو بےبنیاد قرار دے دیاـ

انھوں نے الزام لگایا کہ ’لشکرِ جھنگوی سے میرے تعلق کے بارے میں غلط خبر دینے میں بی این پی مینگل کے ارکان کا ہاتھ ہے کیونکہ ہم ان کی سرداری کو وڈھ میں چیلنج کرتے ہیں۔‘2014 کے بعد روپوش ہونے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ انھیں صوبائی حکومت اور چند اور لوگوں نے کہا، جن کے وہ نام نہیں لینا چاہتے، کہ یا تو وڈھ میں اختر مینگل کی حاکمیت کو مان لو یا پھر ملک چھوڑ کر چلے جاؤـ ‘میں نے کہا کہ میں صرف اللہ کی حاکمیت پر یقین رکھتا ہوں اور میں وہیں رہاـ‘

‘بلوچستان کے حالات مزید بگڑیں گے’

بی این پی مینگل کے رہنما اختر مینگل نے شفیق مینگل کی سیاسی میدان میں واپسی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے عناصر کی حمایت اور سرپرستی سے بلوچستان کے حالات سنورنے کے بجائے مزید بگڑیں گےـ

نیشنل پارٹی کے رہنما اسلم بزنجو نے حال ہی میں شفیق مینگل سے ملاقات کی لیکن پارٹی کے رکن جان بلیدی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس ملاقات کا مقصد انتخابی اتحاد بنانا نہیں تھا۔

’جس حلقے سے شفیق کھڑا ہوا ہے وہیں سے سردار اسلم بزنجو کے بیٹے شاہ میر بزنجو بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ شفیق سے ملنے کی وجہ سیاسی سے زیادہ قبائلی ہےـ‘

مستونگ میں خود کش حملہ،سراج رئیسانی سمیت 130 افراد جاں بحق

مستونگ( نمائندہ جنگ، خبر ایجنسی ) مستونگ میں ہونے والے خودکش دھماکہ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما و حلقہ پی بی 35 مستونگ کی نشست سے نامزد امیدوار نوابزادہ میر سراج خان رئیسانی سمیت 130 افراد جاں بحق اور120سے زائد زخمی ہو گئے،سراج رئیسانی خطاب کیلئے اسٹیج پر آئے تو خودکش حملہ آور نےخود کو دھماکے سے اڑا لیا، ہر طرف لاشیں و انسانی اعضاء بکھر گئے،اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ، تحقیقات کا آغاز کردیا گیا، دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی نےصوبہ بھر میں 3روزہ سوگ اور انتخابی سرگرمیاں معطل رکھنے کا اعلان کیاہے۔ تفصیلات کے مطابق جمعہ کی شام 4بجے کے قریب مستونگ شہر سے 20کلومیٹر شمال مشرقی علاقہ کوئٹہ تفتان شاہراہ پر درینگڑھ کے مقام پر بلوچستان عوامی پارٹی کے انتخابی جلسہ میں اس وقت خودکش دھماکہ ہوا جب بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما و حلقہ پی بی 35 مستونگ کی نشست سے نامزد امیدوار نوابزادہ میر سراج خان رئیسانی خطاب کیلئے اسٹیج پر پہنچے،اس وقت جلسہ گاہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ خودکش حملہ آور جو اسٹیج کے قریب پہلے سے بیٹھا تھا، میر

سراج رئیسانی کے پہنچنے پر اس نے کھڑے ہو کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا ، زور دار دھماکے سے پنڈال میں ہر طرف لاشیں ہی لاشیں بکھر گئیں اور زخمیوں کی آہ وبکا قیامت صغرٰی کامنظر پیش کرنے لگی۔ اطلاع ملتے ہی ڈپٹی کمشنر مستونگ قائم لاشاری ڈپٹی کمشنر کیپٹن (ر) طاہر عباسی کوئٹہ اور سیکورٹی کے اعلیٰ حکام بڑی نفری کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے اور علاقے کوگھیرے میں لے لیا، لاشوں اور زخمیوں کو ایمبولنس، انتظامی اور پرائیویٹ گاڑیوں کے ذریعے مستونگ کے شہید نواب غوث بخش میموریل اسپتال اور کوئٹہ ٹراما سنیٹر منتقل کردیا گیا۔ دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماء نوابزادہ میر سراج رئیسانی شہید کے اہلخانہ بیرون ملک سے آج کوئٹہ پہنچیں گے ،پارٹی ذرائع کے مطابق سراج رئیسانی کی اہلیہ اور بیٹا آج بیرون ملک سے کوئٹہ پہنچیں گے ۔سراج رئیسانی کی نماز جنازہ آج سہ پہر تین بجے ساراوان ہاؤس میں ادا کرنے کے بعد تدفین مستونگ کے شہداء قبرستان میں کی جائے گی۔ ادھر بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر جام کمال نے مستونگ میں پارٹی امیدار نوابزادہ میر سراج رئیسانی کے انتخابی اجتماع میں خودکش حملہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی اس دردناک واقعہ کے خلاف صوبہ بھر میں 3 روزہ سوگ اور انتخابی سر گرمیاں معطل رہیں گی اس طرح کے واقعات جمہور یت کے خلاف سازش ہیں ۔ ادھر داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔

کوئٹہ: ایف سی کے مددگار سینٹر پر حملہ ناکام، جوابی کاروائی میں پانچ شدت پسند ہلاک

  • بی بی سی
  • 18 مئ 2018

کوئٹہ
پانچ حملہ آوروں نے کوئٹہ میں ایف سی کے مددگار سینٹر پر حملے کی کوشش کی

کوئٹہ میں ایف سی کے مددگار سینٹر پر پانچ خودکش حملہ آوروں کی جانب سے کیے گئے حملے کو وہاں پرتعینات عملے نے ناکام بنا دیا۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ پانچ حملہ آوروں نے دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی ایک گاڑی میں مددگار سینٹر میں گھسنے کی کوشش کی لیکن جوابی کاروائی کی مدد سے اسے ناکام بنا دیا گیا۔

اسی بارے میں

سلمان بادینی کون تھے؟

ہزارہ قبیلے کی نسل کشی ہو رہی ہے: چیف جسٹس

آئی ایس پی آر کی جانب سے کہا گیا کہ تمام حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا ہے اور ایف سی کے مرکز پر یہ حملہ گذشتہ روز ہونے والے آپریشن کے جواب میں تھا جس میں کوئٹہ کے نواحی علاقے کلی الماس میں لشکرِ جھنگوی بلوچستان کا سربراہ سلمان بادینی اور تین شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔

ایف سی کے مددگار سینٹر پر ہونے والے حملے میں ایف سی کے چار سپاہی بھی زخمی ہوئے ہیں جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ایف سی کے مددگار سینٹر پر میڈیا کو بتایا کہ حملہ آوروں نے فورسز کا لباس پہنا ہوا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ پنجاب فرانزکز کی مدد سے حملہ آوروں کی شناخت کی جائے گی۔

بلوچستان میں لشکرِ جھنگوی کے خلاف کارروائی کے دوران کرنل ہلاک  

بی بی سی

17 مئی، 2018

کرنل سہیل عابد کی ہلاکت پر پاکستانی وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے افسوس کا اظہار کیا ہے

پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں کالعدم شدت پسند تنظیم لشکرِ جھنگوی کے خلاف ایک کارروائی کے دوران صوبے میں تنظیم کا سربراہ مارا گیا ہے اور اس آپریشن کے دوران ملٹری انٹیلیجنس کا ایک افسر بھی ہلاک ہوا ہے۔

فوجی حکام کے مطابق صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے نواح میں کی جانے والی اس کارروائی میں لشکرِ جھنگوی بلوچستان کا سربراہ سلمان بادینی مارا گیا، جبکہ اس کے علاوہ مزید تین تین شدت پسند بھی ہلاک کر دیے گئے۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ آپریشن کے دوران شدید فائرنگ کے تبادلے میں ملٹری انٹیلیجنس کے کرنل سہیل عابد ہلاک اور چار اہلکار زخمی ہو گئے۔

سلمان بادینی کے سر پر 20 لاکھ روپے انعام مقرر تھا۔ اس آپریشن میں مارے جانے والے دو خودکش بمباروں کا تعلق افغانستان سے بتایا گیا ہے۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ یہ دہشت گرد پولیس اور ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھے۔

پاکستانی وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کرنل عابد کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اسی بارے میں

ہزارہ قبیلے کی نسل کشی ہو رہی ہے: چیف جسٹس

بدھ کی رات آئی ایس پی آر کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق یہ کارروائی آپریشن رد الفساد کے تحت کوئٹہ شہر کے نواحی علاقے کلی الماس میں کی گئی۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے گرفتار ہونے والے ایک شدت پسند نے تحقیقات کے دوران اس علاقے میں کالعدم لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے اہم شدت پسندوں کی موجودگی کا انکشاف کیا تھا۔

اس انکشاف پر سکیورٹی فورسز نے کارروائی کی جس کے دوران دو خود کش حملہ آوروں سمیت تین شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ مارے جانے والا شدت پسند سو سے زائد پولیس اہلکاروں اور ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہلاکت میں ملوث تھا۔

زخمی ہونے والے اہلکاروں میں سے دو کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔

پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے میں ہزارہ برادری کو ہدف بنا کر ہلاک کیے جانے کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ ان ہلاکتوں کے خلاف سیاسی اور انسانی حقوق کی خاتون کارکن جلیلہ حیدر نے بھوک ہڑتال بھی کی تھی جس کے بعد پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوئٹہ جا کر ہزارہ عمائدین سے ملاقات کی تھی اور انھیں اس معاملے میں کارروائی کی یقین دہانی کروائی تھی۔

گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران نے کہا تھا کہ عدالت یہ محسوس کرتی ہے کہ ہزارہ قبیلے کی نسل کشی ہو رہی ہے۔

ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ پر چیف جسٹس کا ازخود نوٹس

  • بی بی سی
  • 2 مئی، 2018
ہزارہتصویر کے کاپی رائٹEPA

Image captionچیف جسٹس نے کہا کہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سے لوگوں میں شدید خوف وہراس پایا جاتا ہے

پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بلوچستان میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے بلوچستان پولیس کے سربراہ سے اس بارے میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔

عدالت نے پولیس کے سربراہ سے رپورٹ طلب کرنے کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اداروں کو بھی ان واقعات سے متعلق اپنی رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔

اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق بدھ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے یہ نوٹس تربت میں پنجابی مزدروں کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران لیا۔

اُنھوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پاکستانی نہیں ہیں؟

نامہ نگار کے مطابق اُنھوں نے کہا کہ گذشتہ کچھ عرصے سے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔

اسی بارے میں

’کوئٹہ میں اتنے دنبے ذبح نہیں ہوئے جتنے ہزارہ قتل ہوئے‘

’گولی کھانے کے بجائے زندگی کا خاتمہ جدوجہد کرتے ہو جائے‘

آرمی چیف کی ’یقین دہانی‘ پر جلیلہ کی بھوک ہڑتال ختم

چیف جسٹس نے کہا کہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی وجہ سے اس صوبے کے لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں جس سے ریاست کے تشخص کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سے لوگوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے نہ تو بچے سکول جا سکتے ہیں اور نہ ہی مریض ہسپتال جانے کے لیے تیار ہیں۔

میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’جن افراد پر قتل کا الزام ہے وہ اس وقت بلوچستان میں جلسے کرتے پھر رہے ہیں‘ تاہم چیف جسٹس نے ان افراد کے نام نہیں لیے۔

جلیلہ حیدر
Image captionگذشتہ ہفتے کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف قبیلے کے افراد نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا

اُنھوں نے صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔

عدالت نے متعلقہ حکام کو حکم دیا ہے کہ وہ 11 مئی تک اس بارے میں اپنی رپورٹ پیش کریں اور اس از خود نوٹس کی سماعت سپریم کورٹ کی کوئٹہ رجسٹری برانچ میں ہو گی۔

اس سے قبل خفیہ ادارے یہ رپورٹس دیتے رہے ہیں کہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے کارکن ملوث ہیں۔

خیال رہے کہ منگل کی شب کوئٹہ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی حقوقِ انسانی کی کارکن جلیلہ حیدر نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے بعد ان کی جانب سے ‘تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی’ پر اپنی تادمِ مرگ بھوک ہڑتال ختم کر دی تھی۔

واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف قبیلے کے افراد نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

اس سلسلے میں نہ صرف شہر صرف مختلف علاقوں میں احتجاجی دھرنا دیا گیا تھا بلکہ پریس کلب کے باہر دو علیحدہ علیحدہ کیمپوں میں تادم مرگ بھوک ہڑتال بھی شروع کی گئی تھی۔

CJP takes suo motu notice of Hazara killings as leaders call off protest after meeting Bajwa

Gen Bajwa meets a delegation of female members of the community. — DawnNewsTV
Gen Bajwa meets a delegation of female members of the community. — DawnNewsTV

Leaders of the Shia Hazara community agreed to call off their protest over the recent spate of targeted killings in the city after a meeting with Chief of the Army Staff (COAS) Gen Qamar Javed Bajwa on Tuesday night.

Gen Bajwa arrived in the city late Tuesday evening and held a meeting with representatives of the Hazara community that has been hit badly by incidents of targeted killing in the city.

According to Inter-Services Public Relations (ISPR), representatives shared their concerns about target killing of the community with the COAS, who gave an assurance that those behind the attacks “shall suffer twice as much”.

The state is responsible for the security of its citizens, said Bajwa.

“Each and every casualty, including from the Hazara community, is of concern to us,” he added. “Through a unified national effort, we have turned the tide of terrorism; however, a lot is still being done against inimical designs to reverse the gains by exploiting various fault lines.”

Editorial: Is there a community more beleaguered in Pakistan than Shia Hazaras?

On Wednesday, Chief Justice of Pakistan Mian Saqib Nisar took suo motu notice of the targeted killings.

“I have just met members of the Hazara community; they are so scared that they are not even approaching the Supreme Court,” said Justice Nisar today, seeking a report from all law enforcement agencies.

“The killers of Hazara community are holding rallies out in the open,” he added, lamenting that the ostracised community members were not being given admission in universities.

“They can’t go to schools or hospitals. Are they not citizens of Pakistan?”

The CJP will hold a hearing on the suo motu notice in Quetta on May 11.

Fruitful meeting

Iqbal had reached Quetta on Monday to persuade Hazara community leaders to call off their protest over the recent spate of targeted killings but they had refused to do so unless Gen Bajwa held a meeting with them.

According to the ISPR, a delegation of notables of the community held a meeting with the army chief and Interior Minister Ahsan Iqbal, who again arrived in Quetta on Tuesday evening.

Read: Where should Hazaras go?

Balochistan Chief Minister Mir Abdul Quddus Bizenjo, Com­m­ander of Southern Command Lt Gen Asim Saleem Bajwa, Home Minister Sarfaraz Ahmed Bugti, Inspector General of Fro­n­tier Corps Maj Gen Nade­­em Ahmed Anjum and IG of Baloc­histan police Moazzam Jah Ans­ari were also present in the meeting between the army chief and the Hazara community elders.

Officials briefed the army chief and the interior minister on the security situation in Quetta and steps taken by the provincial government and law enforcement agencies after the recent wave of target killings in Quetta. Earlier, the Majlis Wahdatul Muslimeen (MWM) wrote a letter to Gen Bajwa, asking him to play his role for stopping the targeted killings of Shia Hazara community’s members in Baloch­istan. The letter, sent by MWM general secretary Allama Nasir Abbas, said the organised sectarian cleansing of Hazara people was going on in Balochistan and there was a need to stop it without further delay.

It further said that Christians and members of other minority communities in the province were also becoming victims of terrorist attacks. He alleged that terrorists openly claimed that they were involved in the killing of Hazaras, but action was not being taken against them.

صدر سے گرفتار تین ملزمان کے سنسنی خیز انکشافات

کراچی میں سی ٹی ڈی پولیس کے ہاتھوں صدر سے گرفتار 3 ملزمان نے دوران تفتیش ایکشن فلموں کے کرداروں جیسے سنسنی خیز انکشافات کئے ہیں۔

ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کے مطابق ملزمان سے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ سندھ کے ماہر پولیس افسران تفتیش کررہے ہیں، ملزمان نے پڑوسی ملک کے خفیہ ادارے کے ایماء پر ان کی حکومت کو مطلوب ایک پروفیسر سمیت متعدد افراد کو کراچی میں قتل، دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

حکام کا دعویٰ ہے کہ ان ملزمان کی گرفتاری پاکستان میں بدامنی و انتشار پھیلانے کی سازش کو ناکام بنانے کی ایک کڑی ہے، ایڈیشنل آئی جی، سی ٹی ڈی ڈاکٹر ثناء اللہ عباسی نے “جنگ” کو بتایا کہ ڈی آئی جی، سی ٹی ڈی ثاقب اسماعیل میمن کی نگرانی میں ان کی ایک ٹیم نے گزشتہ ہفتے ایک کارروائی کے دوران تین ملزمان سیّد یوسف رضا شاہ، سید معصوم علی نقوی اور سید اکبر علی صغیر کو صدر سے گرفتار کیا تھا جو بظاہر عام نوعیت کے ملزمان تھے اور انہوں نے خود کو کالعدم تنظیم سپاہ محمد کے کارکن ظاہر کیا تاہم ان کے بارے میں جب خفیہ ادارے کی رپورٹس کی روشنی میں مخصوص طرز کی الگ الگ تفتیش کی گئی تو سنگین انکشافات سامنے آئے۔

تفتیشی حکام کے مطابق ملزم یوسف رضا اس گروہ کا سرغنہ ہے جو پڑوسی ملک سمیت دو خفیہ ایجنسیوں کیلئے کام کرتا رہا، ملزم جھنگ کے علاقے کوٹ عیسیٰ شاہ سے تعلق رکھتا ہے اور کراچی میں ابوالحسن اصفہانی روڈ کا رہائشی ہے، اردو، پنجابی، فارسی اور انگلش زبان کا ماہر ملزم متعدد بار افغانستان اور ایران آتا جاتا رہا ہے، ملزم پستول، کلاشنکوف اور جی تھری رائفل چلانے کا ماہر ہے، ملزم کے مطابق وہ اپنے والد کے علاج کیلئے 1984ء میں کراچی آیا تھا، والد کا انتقال ہوگیا تو وہ اپنے نانا عشرت کے پاس رہنے لگا، ان دنوں اُسے پڑوسی ملک کے مذہبی رہنما سیّد ابوالفضل کے پاس فارسی مترجم کی نوکری ملی، نوکری دلانے والے قریبی عزیز نے چند ہفتے بعد انکشاف کیا کہ درحقیقت اسے ایک خفیہ ادارے کی جانب سے مذکورہ رہنما پر نظر رکھنے کیلئے پرائیویٹ انٹیلی جنس ڈیوٹی پر لگایا گیا ہے، مذکورہ مذہبی رہنما سے ملنے کے لیے آنے جانے والوں کے علاوہ دیگر امور پر بھی نظر رکھنی ہوتی تھی، اس کا فرضی نام ’’مونی پرویز‘‘ تھا۔

ملزم کے مطابق 1994ء کے ماہ رمضان میں کلفٹن میں مذکورہ مذہبی رہنما کی گاڑی پر مسلح حملہ کیا گیا تو وہ زخمی ہوا جبکہ بہاؤالدینی بال بال بچ گئے، ملزم کے مطابق ان دنوں متعلقہ قونصلیٹ سے عمرانی نامی شخص بہاؤ الدینی سے ملنے کیلئے گھر پر آیا کرتا تھا، اس کے ادارے نے اسے عمرانی کی نگرانی پر بھی لگا دیا، ہدایت پر اس نے عمرانی سے گہرے مراسم پیدا کیے، ایک دن عمرانی نے اسے صدر میں واقع اپنے دفتر بلوایا اور خود کو غیر ملکی انٹیلی جنس کا افسر ظاہر کرتے ہوئے اپنے لیے مدد مانگی، ملزم یوسف کے بیان کے مطابق عمرانی نے اسے بتایا کہ وہ بہاؤ الدینی کی سکیورٹی پر مامور ہے اور یہ بھی کہا کہ اُن کے گھر پر جو لوگ آئیں اُن کے بارے میں اسے بھی آگاہ کرتا رہے، یوں وہ پڑوسی ملک کی انٹیلی جنس کیلئے بھی خفیہ کام کرنے لگا، ملزم کے مطابق ایک دن وہ بہاؤالدینی کے ساتھ قونصلیٹ کی ایک تقریب میں گیا ہوا تھا کہ پاکستانی سرکاری ادارے کے ایک اہلکار نے اس سے ہاتھ ملا کر خیریت پوچھی تو سب کو اس پر شک ہوگیا۔

یوں مارچ 1996ء میں بہاؤ الدینی نے اسے اچانک نوکری سے نکال دیا اور کوشش کے باوجود دوبارہ نہیں رکھا تو وہ آبائی شہر جھنگ چلا گیا جہاں ضلع کونسل کے سبزہ زار پر کراٹے سینٹر کھول لیا، کچھ عرصہ بعد اسے ادارے نے اسلام آباد بلا لیا اور سابقہ خفیہ کام کی تعریف کرکے اسے مزید کام کیلئے آمادہ کیا، ان کے پرانے دوست نے جہاد کے شوق کے پیش نظر کشمیر میں جہاد کرنے پر آمادہ کرلیا، تب وہ کوٹلی آزاد کشمیر روانہ ہوگیا اور مختلف اسلحے کی ٹریننگ حاصل کی جن میں گوریلا ٹریننگ، چھاپہ مار کارروائیاں شامل تھیں، وہ تین مرتبہ پڑوسی ملک کی آرمی سے لڑا، ایک حملے میں زخمی بھی ہوا، اسے تبلیغی شعبے کا امیر بنا دیا گیا، جنوری 2004ء میں پھر کراچی آگیا، سابقہ باس کی مدد سے نیٹو کنٹینر افغانستان لے جانے والی کمپنی میں ملازم ہوا اور فارسی آنے کی وجہ سے کمپنی نے اسے کابل دفتر بھیج دیا جہاں مدفون خزانہ نکالنے کی کوشش میں نایاب مورتیاں نکل آنے اور بٹوارے کے جھگڑے پر مخبری ہونے کی بنا پر افغانستان فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور 16 سال قید کی سزا ہوئی۔

ملزم کے بیان کے مطابق ریڈ کراس والوں کی مدد سے اس کی رہائی ہوئی تو جنوری 2010ء میں پھر کراچی آگیا، اب اسے لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کا سراغ لگانے کی ڈیوٹی پر جھنگ بھیج دیا گیا اور اداروں کو مطلوب کارکنوں کا سراغ لگا کر اُن کے نام اور فون نمبرز فراہم کئے، شک ہو جانے پر اسے واپس کراچی بلالیا گیا اور دوبارہ سابقہ کمپنی جوائن کرلی جس کے بعد وہ پھر افغانستان گیا اور اپنی کمپنی کھول کر کام شروع کردیا، 2013ء میں کابل سے کراچی آیا تو بہاؤ الدینی بلوالیا اور حاجی رضا سے ملاقات کروائی، رضا نے اپنا تعلق غیرملکی ایجنٹ کے طور پر کروایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے ملک کے کچھ مجرم پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں جنہوں نے سینکڑوں لوگوں کو قتل کیا ہے، وہ اب خفیہ طور پر اُن کے ملک آجا بھی رہے ہیں اور حالات میں گڑبڑ کر رہے ہیں، اُن پر نظر رکھنی ہے جس کے بعد اس کا اُن کے ملک کا ویزا بھی لگا دیا گیا اور اگلے دن وہ ان کے ملک کے دارالحکومت پہنچ گیا جہاں اس کی ملاقات 50 سالہ آغا سیّد سے کروائی گئی، ملزم کے مطابق آغا نے بھی اسے یہی کہا کہ انہیں پاکستان یا کسی ملک کے خلاف کام نہیں کرنا ہے بلکہ اپنے ملک کے مجرموں کو پکڑنا ہے جس کے بعد وہ کراچی آیا تو اسے منشیات کے اسمگلر اور 40 افراد سے زائد کے قتل کے ملزم  حسن سالار زئی بلوچ اور اس کے دست راست لیاقت عرف حاجی محمد کی تصاویر دے کر انہیں ڈھونڈ نکالنے اور ٹھکانے لگانے کا ٹاسک دیا گیا، ملزم کے مطابق انٹیلی جنس افسر نے انہیں کلفٹن میں ان دونوں مطلوب افراد کے فلیٹ بھی دکھائے گئے۔

ملزم کے مطابق اس کام کیلئے اس کی تنخواہ ایک لاکھ روپے ماہوار طے ہوئی اور آنے جانے کے اخراجات الگ تھے، جس کے بعد اُسے اکبر رضوی سے ملوایا گیا، ملزم کے مطابق کلفٹن کے جس کثیر منزلہ جدید اور مہنگے ترین پروجیکٹ میں وہ دونوں مطلوب افراد رہائش پذیر تھے اس کے اندر جانا یا قریب بھٹکنا بھی مشکل تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ ساڑھے 3 ماہ تک ان دونوں کا سراغ لگانے یا ان تک پہنچنے میں ناکام رہے جس کے بعد اس کی ڈیوٹی ادارے کو مطلوب پروفیسر سلمان کی تلاش پر لگائی گئی، ملزم کے مطابق کام بڑھنے لگا تو انہوں نے وسائل مانگے جس پر اسے 25 لاکھ روپے کلفٹن میں ادا کیے گئے، ان میں سے 19 لاکھ روپے سے نئی گاڑی خریدی اور 5 لاکھ روپے اپنے ساتھی اکبر کو دیئے، ملزم کے مطابق بالآخر انہوں نے پروفیسر حسن کو کلفٹن میں تلاش کرلیا، وہ اپنے دوست کے ہمراہ ایک ہوٹل پر چائے پی رہا تھا، پروفیسر فارغ ہوکر اپنے فلیٹ کی طرف جانے لگا تو انہوں نے اسے گھیر لیا اور ہینڈز کرایا اور فائرنگ کردی جس سے پروفیسر حسن زخمی ہوا، اسے جناح اسپتال پہنچایا گیا جہاں اسے قتل کرنے کی بھر پور کوشش کی مگر ناکام رہے جس پر پروفیسر سلمان کو سولجر بازار کے فاطمید اسپتال شفٹ کردیا گیا۔

ایک ماہ بعد پروفیسر صحت یاب ہوکر اسپتال سے ڈسچارج ہوا تو انہیں اکبر اور حسن کی مدد سے اسپتال کے گیٹ پر ہی قتل کرا دیا جس کے بعد حاجی رضا نے اسے 3 لاکھ روپے دیئے جوکہ اکبر کو گھر جاکر دیئے جس پر حاجی رضا نے حسن سالار زئی اور لیاقت والے ٹاسک اکبر کے حوالے کردیئے، ملزم کے مطابق پروفیسر سلمان کے قتل کے بعد حاجی رضا نے اسے دو دریا کلفٹن بلوایا اور مزید کئی ٹارگٹ دئیے تاہم کچھ عرصے بعد ہی اسے بلوچستان کے مختلف شہروں کی ذمے داری دے دی گئی اور کراچی کے ٹارگٹ اکبر، حسن اور دیگر ملزمان کرتے رہے، پولیس حکام کے مطابق گرفتار دیگر دو ملزمان معصوم نقوی اور اکبر صغیر نے بھی تفتیش کے دوران سنگین نوعیت کے انکشافات کئے ہیں جن کی تصدیق کی جارہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.