کلبھوشن یادو کو پھانسی دو
کلبھوشن یادو کو پھانسی دو
یہ کہانی بڑی لمبی اور کئی دہائیوں پر محیط ہے لیکن ہم اسے تھوڑا مختصر کیے دیتے ہیں۔ یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب ضیاء الحق کو دنیا سے رخصت ہوئے بیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا لیکن شہر کی فصیلوں پر اب بھی اس کا سایہ پوری طرح ڈیرا ڈالے ہوئے تھا۔ پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا اور ملک کے ہر گوشہ و کنار میں معصوموں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی تھی۔
یہ 14 مارچ 2010 کی بات ہے۔ جناب شہباز شریف جامعہ نعیمیہ لاہور میں منعقدہ ایک تقریب میں مہمان خصوصی تھے۔ ان کے خطاب کی باری آئی تو انہوں نے طالبان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “آپ اور ہمارا مقصد ایک ہے اس لیے آپ کو پنجاب میں حملے نہیں کرنے چاہیے۔” پھر اسی سال انہوں نے ایک خط کے ذریعے تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کو یہ پیغام بھی بھیجا کہ اگر وہ صوبہ پنجاب کی حدود میں کوئی کاروائی نہ کریں تو ان کے ساتھ امن معاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
وقت گزرتا گیا اور پھر 2013 کا سال آیا۔ ملک بھر میں قتل و غارت کا بازار اب بھی پوری طرح گرم تھا بس فرق اتنا تھا کہ اب دہشت گردوں کی ساری توجہ کراچی اور کوئٹہ پر تھی جہاں ان کے ہاتھوں بے گناہ لوگوں کی لاشیں مسلسل گر رہی تھیں۔ کوئٹہ کے گلی کوچے تو روز ہزارہ قوم کے خون سے رنگین ہورہے تھے۔ ان سے روزگار چھینا جاچکا تھا۔ ان پر تعلیم کے دروازے بند کیے جاچکے تھے اور انہیں تاک تاک کر نشانہ بنایا جارہا تھا۔ جبکہ دہشت گردوں کے سہولت کار روز دھڑلے سے اخباری بیانات کے ذریعے کوئٹہ کو ہزارہ قوم کے وجود سے پاک کرنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ تبھی 10 جنوری کا خونین واقعہ رونماء ہوا۔ اس دن علمدار روڑ کوئٹہ میں مختصر وقفے سے دو خود کش دھماکے کیے گئے جن میں سو سے زیادہ افراد قتل اور ڈیڑھ سو کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔ ان دھماکوں کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی۔
پھر ان دھماکوں کے محض ڈیڑھ مہینے بعد جب ان مقتولوں کے قبر کی مٹی خشک بھی نہیں ہوئی تھی، 16 فروری کے دن کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن میں ایک ٹن بارود کا دھماکہ کیا گیا جس میں ایک بار پھر سو سے زیادہ لوگوں کے چیتھڑے اڑے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دھماکے میں پہلی بار سی فور نامی ہلاکت خیز مواد کا استعمال ہوا تھا۔ اس دھماکے کی ذمہ داری بھی لشکر جھنگوی نے قبول کی۔
وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔ ساتھ ہی بے گناہوں کا قتل عام بھی جاری رہا، جس کی ذمہ داری کبھی طالبان، کبھی لشکر جھنگوی، کبھی جیش الاسلام تو کبھی خالد بن ولید فورس قبول کرتی رہی۔ پھر چشم فلک نے مارچ 2014 کا وہ دن بھی دیکھا جب وزیر اعلیٰ ہاؤس اور صوبائی سیکریٹیریٹ کے بغل میں واقع کوئٹہ ہاکی گراؤنڈ میں اہلسنت والجماعت کا جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں کافر کافر کے نعروں اور قہقہوں کی گونج میں علمدار روڑ اور ہزارہ ٹاؤن کے خونریز واقعات کی طرف اشارہ کرکے لہک لہک کر یہ ترانہ گایا گیا؛
“جو سینچری کوئٹہ میں تم نے کردی
ریکارڈ اس کا دنیا میں باقی رہے گا”
ایسے میں سٹیج پر بیٹھے لدھیانوی صاحب کا چہرہ دیکھنے کے قابل تھا جس پر ایک فخریہ مسکراہٹ صاف نظر آرہی تھی۔
وقت اپنی مخصوص رفتار سے آگے بڑھتا رہا۔ اگست 2014 میں طالبان سے علیحدگی کے بعد جماعت الاحرار کے نام سے دہشت گردوں کا ایک نیا گروہ منظر عام پر آیا جس کے ترجمان احسان اللہ احسان مقرر ہوئے۔ وہی احسان اللہ احسان جو اس سے قبل تحریک طالبان کے ترجمان تھے، جس کے ہاتھ ہزاروں بے گناہوں کے خون میں لتھڑے ہوئے تھے۔ پھر جب اس دہشت گرد جماعت کے قیام کو صرف دو ہی مہینے ہوئے تھے، نومبر 2014 کو لاہور میں واہگہ بارڈر پر ایک خود کش دھماکہ کیا گیا جس میں خواتین اور بچوں سمیت 55 افراد کی جانیں چلی گئیں۔ اس بہیمانہ واقعے کی ذمہ داری اسی جماعت الاحرار نے قبول کی جس کے ترجمان احسان اللہ احسان کو مقرر کیا گیا تھا۔
پھر اسی سال دسمبر میں دہشت گردوں نے پشاور آرمی پبلک سکول پر حملہ کردیا جس میں 130 سے زائد بچے سفاکی سے قتل کر دیے گئے۔ اس واقعے کی ذمہ داری بیک وقت تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار نے قبول کی۔ اسی طرح مارچ 2016 میں لاہور کے گلشن اقبال پارک میں ہونے والے خود کش دھماکے کی ذمہ داری بھی جماعت الاحرار نے قبول کی جس میں 72 کے قریب افراد کی جانیں چلی گئی تھیں۔
پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ مارچ 2016 میں بلوچستان اور ایران کے سرحدی علاقے سے ایک بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی گرفتاری عمل میں آئی جو حسین مبارک پٹیل کے شناختی دستاویز پر ایران سے پاکستان پہنچا تھا۔ اس جاسوس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس کے ملک دشمن عناصر کے ساتھ گہرے تعلقات تھے اور وہ بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث تھا۔ اگرچہ یہ ایک بڑا واقعہ تھا لیکن اس سے کہانی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ صرف دو مہینے بعد یعنی 9 اگست 2016 کو سول ہسپتال کوئٹہ میں ایک اور خود کش دھماکہ ہوا جس میں بلوچستان کے چوٹی کے وکلاء سمیت 70 کے قریب افراد قتل ہوئے۔ اس خود کش دھماکے کی ذمہ داری بھی جماعت الاحرار کی طرف سے اس کے ترجمان احسان اللہ احسان نے قبول کی۔
وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور ملک بھر میں مزارات اور دیگر بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر معصوموں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی رہی جس کی ذمہ داری کبھی جماعت الاحرار تو کبھی اس کے بھائی بند قبول کرتے رہے۔
پھر 11 مارچ 2017 کو کہانی میں اس وقت ایک زبردست موڑ آیا جب وزیر اعظم نواز شریف نے لاہور میں واقع جامعہ نعیمیہ میں خطاب کرتے ہوئے علماء سے دہشت گردی کے خلاف نیا بیانیہ تشکیل دینے کی اپیل کردی۔ جی ہاں اسی جامعہ نعیمیہ میں جہاں سات سال قبل خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کے بھائی شہباز شریف نے طالبان سے پنجاب میں حملے بند کرنے کی اپیل کی تھی۔ پھر تو کہانی میں ایک کے بعد ایک نیا موڑ آنے لگا جس میں سے ایک اہم موڑ اپریل 2017 میں وزیر اعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا یہ انکشاف تھا کہ بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات بالخصوص “ہزارہ برادری” کے قتل عام میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کا ہاتھ تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ وہی سرتاج عزیز ہیں جنہوں نے ضرب عضب کے آغاز پر کہا تھا کہ ہم ان شدت پسندوں کونشانہ کیوں بنائیں جو ہماری سلامتی کیلئےخطرہ نہیں!! موصوف کے اس “چشم کشا انکشاف” سے یہ بات تو بالکل ہی واضح ہوگئی کہ کوئٹہ میں معصوم لوگوں کے قتل کی سینچریاں بنانے اور 1600 سے زاید بے گناہ ہزارہ عورتوں، مردوں، بوڑھوں اور بچوں کے قتل عام میں سارا ہاتھ تو کلموہے کلبھوشن کا تھا۔ جبکہ لشکر جھنگوی، اس کے سیاسی سرپرست اہل سنت والجماعت اور “لدھیانوی صاحب” کو تو یونہی بدنام کیا جارہا تھا۔ اس غلط فہمی کا دور ہونا تھا کہ لدھیانوی صاحب بھی “دوستانہ انداز” میں آگے بڑھے اور انہوں نے یہ کہہ کر عوام کو اطمینان دلایا کہ “میں آگیا ہوں، اب فکر کی کوئی بات نہیں” جس کے بعد اچانک یہ عقدہ کھلا کہ جناب تو شروع سے ہی امن کے پیامبر تھے اور کافر کافر کے نعرے بھی انہوں نے ہی بند کرائے۔ بس پھر کیا تھا، ہر طرف سے ان کی واہ واہ ہونے لگی اور انہیں “سپیس” دینے کے مطالبے ہونے لگے جنہیں دیکھتے ہوئے احسان اللہ احسان نے بھی دہشت گردی سے توبہ کرلی اور لگے شعر و شاعری کی باتیں کرنے۔
سنا ہے کہ آج کل لدھیانوی صاحب قومی دھارے میں شامل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں جبکہ احسان اللہ احسان نے بھی انسانی سروں سے فٹ بال کھیلنے کا مشغلہ ترک کر کے صرف شعر شاعری پر توجہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ عوام بھی اس بات سے مطمئن ہیں کہ کیونکہ اب “وہ” آگئے ہیں اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں!! اب تو ان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ کلبھوشن یادو کو پھانسی دو۔