وقت بہت بدل چکا

وقت بہت بدل چکا!

پچھلی صدی کی آٹھویں دہائی کی بات ہے۔ جنرل ضیاء تن من دھن سے پاکستان میں سعودی برانڈ اسلام کے نفاذ کی کوششوں میں مصروف تھے۔ جب کہ حوزہ علمیہ قم سے پڑھ کر آنے والے کچھ حجت الاسلام اپنا سارا زور اس بات پر لگا رہے تھے کہ کسی طرح ملک میں ایرانی مارکہ اسلام کے نفاذ کو ممکن بنایا جائے۔ موسیقی کافی حد تک شجر ممنوعہ بن گئی تھی اور پی ٹی وی پر زیادہ تر “ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں” اور “اے مرد مجاہد جاگ زرا اب وقت شہادت ہے آیا” جیسے خون کو گرما دینے والے ترانے بجتے تھے۔ یہی حال ایران کا بھی تھا جہاں کا میڈیا مکمل آرکسٹرا کے ساتھ” اللہ اکبر، خمینی رہبر” جیسے انقلابی ترانے نشر کرکے عوام کا انقلابی جذبہ مسلسل جگائے رکھنے میں مصروف تھا۔ انہی دنوں کوئٹہ کے کچھ ملاؤں کے سر میں نہیں معلوم کیا سودا سمایا کہ انہوں نے ایک فتویٰ کے ذریعے نہ صرف ہزارہ گی دمبورے کو اسلام سے خارج قراردے دیا بلکہ دمبورہ بجانے اور اس کے سننے والوں کو بھی جہنمی ڈیکلیئر کردیا۔

ہمیں یاد ہے کہ جب کسی محفل میں ایران سے ٹپک پڑنے والے ایک حجتہ الاسلام کی توجہ ایرانی جنگی ترانوں کی طرف دلائی گئی، جن میں مکمل مغربی آرکیسٹرا سے کام لیا جاتا تھا تو ملّا صاحب نے قرآن کی کئی آیتیں سنانے کے بعد فرمایا تھا کہ”یہ گانے نہیں بلکہ انقلابی ترانے ہیں، جن کے سننے سے نہ صرف ڈھیرسارے ثواب ملتے ہیں بلکہ ان ترانوں کو مسلسل سننے والا مرنے کے بعد سیدھا جنت میں جاتا ہے”

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب ملّا سے پوچھا گیا کہ “اگر دمبورے پر انقلابی ترانے گائے جائیں تو کیا دمبورہ حلال ہوگا، اور کیا اس کے سننے والے ثواب دارین حاصل کر سکیں گے؟” تو ملّا صاحب کا جواب تھا کہ “دمبورہ جہنم کا ساز ہے اس لئے وہ کبھی جنتی نہیں بن سکتا”
اس واقعے کو تیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے، لیکن روٹی روزی اور تنخواہ حلال کرنے کے لئے ہزارہ گی ثقافت اور دمبورے کے خلاف فتوؤں کا کاروبار اب بھی اپنے عروج پر ہے۔

ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے کہ افغانستان کے قلب میں واقع تاریخی شہر بامیان میں “جشن دمبورہ” کے نام سے ہزارہ گی لوک موسیقی کے ایک پروگرام کے انعقاد کا اعلان کیاگیا۔ اس پروگرام کے روح رواں افغانستان کے معروف گلوکار وحید قاسمی تھے جنہوں نے “نہاد فرہنگی بابا” نامی ایک ثقافتی گروپ کے ساتھ مل کر اس تاریخی ایونٹ کا اہتمام کیا تھا۔ لیکن اس سے پیشتر کہ اس سلسلے میں تیاریوں کا آغاز ہوتا، بامیان ہی کے کچھ ملاؤں نے بڑی عجلت میں دمبورہ کو خلاف اسلام قرار دے کر مذکورہ جشن کے خلاف فتویٰ صادر کردیا۔ فتویٰ میں کہا گیا کہ چونکہ دمبورہ بجانے اور سننے سے انسان شہوت پرستی اور عشق میں مبتلا ہوتا ہے اس لیے یہ حرام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔

ملاؤں کے اس فتوے کے بعد دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب نہ صرف عوام کی اکثریت نے اس فتوے کو مشکوک سرگرمیوں میں ملوث کچھ ملاؤں کی کارستانی قرار دے کر اس کی مذمت کی بلکہ خود ملاؤں کی بھی ایک بڑی تعداد نے اس فتوے کی مخالفت کرتے ہوئے دمبورے کو ہزارہ ثقافت کا ایک لازمی جزو قرار دیتے ہوئے جشن کی حمایت کا اعلان کردیا۔ جس کے بعد وسیع پیمانے پر جشن دمبورہ کے حق میں باقاعدہ ایک مہم چلائی گئی۔ اس مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمعہ اور ہفتہ کے دن بامیان میں منعقد ہونے والا مذکورہ جشن لوگوں کی توقعات سے بڑھ کر کامیاب رہا۔ خوشی کی بات یہ تھی کہ اس جشن میں نہ صرف علماء کی ایک بڑی تعداد نے بہ نفس نفیس شرکت کی بلکہ خواتین نے بھی ہزاروں کی تعداد میں اس جشن میں شامل ہوکر غیروں کے ایجنڈوں پر عمل کرنے والے ملاؤں کے فتوؤں کو اپنی جوتیوں کی نوک پر رکھ دیا۔
اس تاریخی جشن کے کامیاب انعقاد اور علماء و خواتین کی کثیر تعداد میں شرکت سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ وقت کا پہیہ مسلسل آگے کی جانب رواں دواں ہے اور لوگ اب شر پسند اور اغیار کے پراکسی ملاؤں کے چنگل سے نکلنے لگے ہیں جو بذات خود ایک خوش آئند بات ہے۔ ہم بامیان کے عوام کو اس کامیاب اور تاریخی جشن کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ آئندہ بھی ایسے ثقافتی پروگراموں کا انعقاد کرتے رہیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.