پاک افغان بگڑتے تعلقات۔ 

پاک افغان بگڑتے تعلقات۔ 

اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات کبھی بھی پرجوش نہیں رہے اور جانبین اپنی ناکامیوں بالخصوص بد امنی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے رہے۔ لیکن گزشتہ چند ہفتوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات اور دونوں اطراف سے جاری ہونے  والے بیانات کو دیکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ لگ بھگ اڑھائی ہزار کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد کے حامل ان ہمسایہ ممالک کے مابین تعلقات خرابی کی آخری حدوں کو چھونے کے قریب ہیں۔

یہ تقریباَ دو مہینے قبل یعنی 7 اگست کی بات ہے کہ افغانستان کے ذرائع ابلاغ میں ایک ایسے پاکستانی جنگجو کا اعترافی بیان نشر ہوا تھا جس نے اپنا تعلق پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو سے بتایا تھا۔ مذکورہ “مجاہد” جس کا نام عصمت اللہ اور والد کا نام محمد یامین ہے، افغانستان کے صوبہ پکتیا کے ضلع جانی خیل میں اس وقت زخمی حالت میں گرفتار ہوا تھا جب وہ بعض دیگر پاکستانی جنگجؤں کے ساتھ مل کر افغان فورسز سے لڑائی میں مشغول تھا ۔ اس اعترافی بیان میں جو مکمل اردو زبان میں تھا عصمت اللہ نے افغان میڈیا کے نمائندوں کے سامنے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ وہ جیش محمد، لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کی تبلیغات سے متاثر ہوکر 9 دیگر پاکستانیوں کے ساتھ افغانستان میں جہاد کے لیے آیا ہوا تھا۔ تقریباَ 14 منٹ پر محیط اس اعترافی بیان میں مذکورہ مجاہد نے بہت سے ایسے “انکشافات” کیے تھے جن کو اگر سچ مان لیا جائے تو افغانستان میں مصروف عمل پاکستانی “جہادیوں” کی کارستانیوں اور ان کی وہاں بلا روک ٹوک رفت و آمد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

پھر اس واقعے کے محض چند دنوں بعد جب مذکورہ واقعے سے متعلق تبصروں کا طوفان ابھی تھما نہیں تھا ایک اور خبر کی اشاعت نے پاک افغان تعلقات کی قلعی پوری طرح کھول کر رکھ دی۔ یہ واقعہ جو نسبتاَ زیادہ حساس نوعیت کا تھا، ایک ایسے پاکستانی کی گرفتاری سے متعلق تھا جس پر پاکستان کی خٖفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے تعلق کا برا راست الزام تھا۔ افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کچھ ہفتے قبل کابل سے ایک ایسے مشکوک شخص کو گرفتار کیا تھا جس کا تعلق مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے تھا۔ 17 اگست کو افغان میڈیا نے اس سلسلے میں ایک ویڈیو بھی جاری کی تھی جس میں اللہ نور عرف مجید نامی شخص نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اس کا تعلق کوئٹہ سے ہے اور وہ 2013 سے آئی ایس آئی کے لیے کام کر رہا ہے۔ افغان میڈیا رپورٹس کے مطابق مذکورہ ایجنٹ کابل میں نہ صرف بھکاریوں اور ریڑھی بانوں کی شکل میں ایک منظم جاسوسی نیٹ ورک چلا رہا تھا بلکہ وہ طالبان کے ساتھ مل کر مستقبل میں کابل کے پل چرخی جیل پر حملے کی بھی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔

شاید یہ اتفاق ہی ہو کہ افغان ذرائع ابلاغ کی ان رپورٹوں اور افغان اہل کاروں کے تندو تیز بیانات کے محض ایک ہفتے بعد امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ایک خطاب میں افغان مسئلے پر نہ صرف پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیا بلکہ افغانستان میں مزید فوجی بھیجنے کا بھی اعلان کیا۔ جنوبی ایشیا سے متعلق اپنے اس پہلے بیان میں امریکی صدر نے پاکستان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ” پاکستان کو اپنے ہاں موجود دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنی ہوں گی ورنہ اسے خراب نتایج بھگتنے ہوں گے“۔ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے سینئر کمانڈر جنرل نکولسن نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے واضح کیا کہ “امریکہ کوئٹہ اور پشاور میں طالبان رہنماؤں کی موجودگی سے باخبر ہے” اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے ان بیانات کا افغانستان میں بڑی گرم جوشی سے خیر مقدم کیا گیا جبکہ پاکستان نے ان پر شدید ناراضی اور بھر پور تحفظات کا اظہار کیا۔ پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مجوزہ امریکی پابندیوں اور فوجی امداد میں کمی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ لیکن بعد میں ہونے والی پاکستان کی سفارتی دوڑ دھوپ سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکی صدر کا بیان اتنا بھی معمولی اور غیر اہم نہیں تھا جتنا اسے ثابت کرنے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ خصوصاَ ایک ایسی صورت حال میں جب پاکستان کا نزدیک ترین دوست چین بھی ہندوستان کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے حقانی نیٹ ورک، جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسی تنظیموں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرنے لگے۔

اگرچہ اس موضوع سے متعلق سیاسی اور سفارتی محاذ پر ہونے والی گہما گہمی اب بھی اپنے عروج پر ہے لیکن اس دوران پاکستان اور افغانستان کی جانب سے کچھ ایسے بیانات بھی سامنے آئے ہیں جن سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اگر جانبین اپنے بیانات پر اخلاص سے عمل کریں تو خطے میں امن و امان کی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے ۔ اس ضمن میں پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کے ان بیانات کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے جس میں انہوں نے لشکر طیبہ، اور حقانی نیٹ ورک کو ملک کے لیے بوجھ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پہلے ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا۔

دوسری طرف عید کے موقع پر جاری ہونے والے افغان صدر اشرف غنی کا وہ پیغام بھی سراہے جانے کے قابل ہے جس میں پاکستان کو جامع مذاکرات کی پیش کش کی گئی تھی۔ جبکہ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کے حالیہ بیان میں چھپے اس دھمکی آمیز پیغام کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں جس کے مطابق”اس سے قبل کہ امریکہ پاکستان سے متعلق اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لے، وہ ایک مرتبہ پھر پاکستان سے مل کر کام کرنے کی کوشش کریں گے“۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک خطے کو مزید کسی خلفشار سے بچانے اور علاقے میں امن و امان کی بہتری کے لیے مل کر کام کریں اور اپنے منظور نظر گروہوں کی سرپرستی ترک کرکے تمام تر وسائل اپنے عوام کی ترقی کے لیے صرف کریں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں پاکستان اور افغانستان دونوں اس وقت بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں جس کی زد میں آکر روزانہ لاتعداد معصوم لوگوں کی زندگیوں کے چراغ گل ہو رہے ہیں۔ اس لیے توقع کی جانی چاہیے کہ افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کے بجائے اپنے معاملات سدھار نے کی کوشش کریں گے اور ایک دوسرے کے گھروں میں جھانکنے کے بجائے اپنے گھروں کی خبر رکھیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.