بے حرمتی! افسانہ

بے حرمتی

 

اس نے دیوار پر لگی گھڑی پر نظر ڈالی۔ سہ پہر کے چار بجنے والے تھے۔ دفتر سے چھٹی کا وقت ہورہا تھا۔ کمرے میں ایک خفیف سی ہلچل مچی ہوئی تھی اور سارا سٹاف گھر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ وہ اپنی کرسی سے اٹھا۔ اس نے اپنی جیبیں ٹٹولیں اور چابیوں کے گچھے کا لمس  محسوس کرکےاطمینان کی سانس لی۔  دفتر سے نکلتے وقت اس نے روز کی طرح سپرنٹنڈنٹ کی میز پر پڑا اس دن کا اخبار بھی اٹھا لیا تاکہ گھر پہنچ کر اس کا تفصیل سے مطالعہ کر سکے۔ اس کا دفتر دوسری منزل پر تھا۔ کمرے سے نکل کر وہ داہنی طرف مڑا جہاں کچھ قدم پر سیڑھیاں نیچے کی طرف جا رہی تھیں۔ سیڑھیاں اتر کر وہ نیچے پہنچا تو اسے ملازمین کی بھیڑ نظر آئی جو  گھروں کو جانے کے لئے بے چین نظر آرہے تھے۔  اب اس کا رخ سائیکل سٹینڈ کی طرف تھا جہاں وہ روز اپنی موٹر سائیکل کھڑی کرتا تھا۔ سٹینڈ پر حسب معمول بڑا رش تھا۔ وہ اپنی موٹر سائیکل کے پاس پہنچا۔ قطار سے موٹر سائیکل نکالنے سے پہلے اس نے اخبار تہہ کرکے احتیاط کے ساتھ اس کی ہیڈ لائٹ اور ہینڈل کے درمیان پھنسا دیا۔ دوسری کک پر موٹر سائیکل کے سائلنسر سے ایک غراہٹ نکلی۔ اس نے احتیاط سے اپنی موٹر سائیکل نکالی اور اس پر سوار ہوکر  دفتر کے مین گیٹ کی طرف بڑھنے لگا۔ تبھی اس کے موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ اس نے بریک پر پاؤں رکھ دیئے اور موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کر کے موبائل نکال کر اس کی سکرین پر نظر ڈالی۔ فون اس کی بیوی کا تھا۔

ہیلو۔۔۔

ہیلو ، کیا چھٹی ہوگئی؟ گھر آرہے ہو؟ دیکھو فاطمہ کے لئے کتابیں لانا نہ بھولنا۔ پرسوں سے اس کی کلاسیں شروع ہورہی ہیں۔ بیوی نے حسب عادت ایک ہی سانس میں اسے اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا۔

ٹھیک ہے میں لیتا آؤں گا۔  یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا اور موٹرسائیکل دوبارہ گیئر میں ڈال کر گیٹ کی طرف بڑھنے لگا۔ دفتر کے احاطے سے نکل کر وہ بڑی سڑک تک پہنچا تو اسے ٹریفک کا اژدہام نظر آیا۔ یہ صورت حال اس کے لئے نئی نہیں تھی۔ اس سڑک پر  چونکہ سرکاری دفاتر  کی بھرمار تھی، اس لئے مخصوص اوقات میں یہاں بھاری ٹریفک کی موجودگی معمول کی بات تھی۔ وہ  دھیمی رفتار سے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے  چوک تک پہنچا تو اس نے کچھ سوچ کر موٹر سائیکل ایک نسبتاَ کم بھیڑ بھاڑ والی سڑک کی طرف موڑ دی۔ اب اس کا رخ بازار کی طرف تھاجہاں سے اسے کتابوں کی مشہور دوکان سے اپنی بچی کے لئے سکول کی کتابیں اور کاپیاں خریدنی تھیں۔ اسے سخت بھوک لگ رہی تھی لیکن وہ جانتا تھا کہ اس کی بیٹی نئی کتابوں کا انتظار کر رہی ہوگی۔ ابھی تو ان پر کور چڑھانے کا مرحلہ بھی باقی تھا جس کے لئے اسے خوبصورت نقش و نگار والے کاغذ   کا انتخاب بھی کرنا تھا۔

“فاطمہ نئے بیگ، نئی کتابوں اور کاپیوں اور رنگ برنگی پنسلوں کو دیکھ کر کتنی خوش ہوگی!” یہ سوچ کر اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔ تبھی اچانک فضاء گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سے گونج اٹھی۔ یہ آوازیں اتنے قریب سے آرہی تھیں کہ اسے اپنے کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ ساتھ ہی اسے ایسا لگا جیسے اس کے جسم میں جا بجا انگارے پیوست ہو رہے ہوں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اس سے پہلے کہ وہ اس ناگہانی صورت حال کو اچھی طرح سمجھ پاتا اس کی گرفت موٹر سائیکل پر کمزور پڑنے لگی اور وہ  لڑکھڑا کر فٹ پاتھ سے ٹکرایا اور موٹر سائیکل سمیت سڑک  پر گر پڑا۔ اس کے منہ سے ایک درد ناک چیخ نکلی۔ اس کے بدن سے درد کی شدید ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ اس نے اپنے حواس مجتمع کئے اور اٹھنے کی کوشش کی۔ لیکن ناکام رہا۔ اسے اندازہ ہو گیا کہ اس کا نچلا دھڑ  موٹر سائیکل کے نیچے دبا ہوا تھا۔ اس نے اپنا جسم ٹٹولا تو وہ خون میں لتھڑا ہوا تھا۔ اس کے منہ سے ایک سسکاری نکلی۔ اس نے مشکل سے گردن اٹھا کر آس پاس نظر دوڑائی تو وہاں عجیب منظر تھا۔ گاڑیوں کے ہارن بج رہے تھے، آس پاس کی دکانوں کے شٹر گرنے کی آوازیں آرہی تھیں اور لوگ خوف کی حالت میں ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ اس کی موٹر سائیکل کی ہیڈ لائٹ ٹوٹ چکی تھی اور ٹنکی پچک گئی تھی۔ اس کے آس پاس بہت سارا خون بکھرا ہوا تھا جو یقیناَ اسی کا تھا۔

اس نے ایک بار پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن کراہ کر رہ گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا مزید گہرا ہونے لگا۔ اس نے مدد کے لئے پکارنا چا ہا لیکن آواز کے بجائے اس کے منہ سے خون کی ایک دھار بہہ نکلی۔ وہ سڑک پر پڑا کراہتا رہا اور  لوگ سراسیمگی کی حالت میں آس پاس سے گزر تے رہے۔ اس کی مدد کرنے کی کسی نے کوشش نہیں کی۔ پھر کچھ ہی دیر میں سڑک سنسان ہو گئی۔ ایسے میں اگر کوئی شخص غلطی سے اس طرف آ بھی نکلتا تو معاملے کی نزاکت بھانپ کر تیزی سے نکل جاتا۔ اس کے جسم سے مسلسل خون بہہ رہا تھا۔ اب تو اس کی سانسیں بھی اکھڑنے لگی تھیں اور پپوٹے بھاری ہونے لگے تھے۔ تبھی اسے اپنے قریب ایک گاڑی کے رکنے کی آواز آئی۔ اس نے بمشکل اپنی آنکھیں کھولیں تو اسے سامنے ایک سفید رنگ کی گاڑی کھڑی نظر آئی جس میں سے ایک شخص بڑی عجلت میں نیچے اتر رہا تھا۔

اسے امید کی ایک کرن نظر آئی۔ اس نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا۔ آخر کوئی تو ایسا تھا جو اس کی مدد کرنے کے لئے رکا تھا۔ اس نے بوجھل نظروں سے کار سے اترنے والے کی طرف دیکھا۔ وہ سفید کپڑوں میں ملبوس ایک درمیانی عمر کا آدمی تھاجس نے کار کا دروازہ بند کرنے کی بھی زحمت نہیں کی اور تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔ اپنی طرف آتے دیکھ کر  اس نے اپنے بدن کو جنبش دینے کی کوشش کی تاکہ مدد کے لئے  آنے والے شخص کو اپنے زندہ ہونے کا احساس دلا سکے۔ لیکن یہ جان کر اسے سخت مایوسی ہوئی کہ آنے والا اس کی مدد کرنے کے بجائے اس  پر ایک اچٹتی نگاہ ڈال کر آگے بڑھ گیا اور کچھ ہی قدم دور سڑک پر بکھرے کاٖغذات سمیٹنے لگا۔ اسے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ اسی اخبار کے صفحات تھے جو وہ دفتر سے لے کر آیا تھا۔ اس نے آخری بار کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن آواز اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئی۔ اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور دماغ تیزی سے تاریکی میں ڈوبنے لگا۔

ادھر سفید کپڑوں میں ملبوس شخص نے اخبارات کے صفٖحے سمیٹے اور واپس اپنی گاڑی کی طرف جانے لگا۔  اس کے چہرے پر دکھ کے آثار تھے۔ وہ بار بار کانوں کو ہاتھ لگا رہا تھا اور  منہ ہی منہ میں بڑبڑا  رہا تھا کہ لوگوں کے دلوں میں خدا کا خوف بالکل نہیں رہا۔ سارے اندھے بنے ہوئے ہیں۔ زمین پر پڑے مقدس اوراق کی بے حرمتی ہورہی ہے اور کسی کو اتنی بھی توفیق نہیں  کہ انہیں اٹھا کر کسی محفوظ مقام پر رکھ دیں۔

یہ افسانہ پہلی بار “مکالمہ” پر شائع ہوا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.