ہزارہ برادری ٹارگٹ کلنگ از خود نوٹس

عدالت یہ محسوس کرتی ہے کہ ہزارہ قبیلے کی نسل کشی ہو رہی ہے: چیف جسٹس

بی بی سی
  • 11 مئی، 2018
ہزارہ
ہزارہ برادری ٹارگٹ کلنگز کے خلاف دھرنے دیتی رہی ہے۔   تصویر کے کاپی رائٹ AFP

پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ عدالت یہ محسوس کرتی ہے کہ ہزارہ قبیلے کی نسل کشی ہو رہی ہے جس پر عدالت کو اس معاملے کا ازخود نوٹس لینا پڑا۔

جسٹس ثاقب نثار نے یہ ریمارکس کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران دیے جو ان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔

نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہزارہ قبیلے کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی مذمت کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر حکومت ہزارہ برادری کو تحفظ نہیں دے سکتی تو انھیں جینے کا راستہ تو دے۔

یہ بھی پڑھیے

’کوئٹہ میں اتنے دنبے ذبح نہیں ہوئے جتنے ہزارہ قتل ہوئے‘

پانچ سو دسواں ہزارہ

ہزارہ قبیلے کی جانب سے بیرسٹر افتخار نے عدالت کو بتایا کہ گذشتہ 20 سال سے قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے لیکن ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہیں آرہی ہے۔

جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی جو حکومت کے بعد آرمی چیف سے کامیاب مذاکرات کے بعد ختم ہوئی

انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان معظم جاہ انصاری نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 2008 میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے جن میں 208 افراد مارے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی اداروں کی کوششوں کی وجہ سے اب ان واقعات میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔

آئی جی پولیس نے بتایا کہ رواں سال کے چار ماہ کے دوران ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں قبیلے سے تعلق رکھنے والے نو افراد ہلاک ہوئے۔

بیرسٹر افتخار نے بتایا کہ اگر 2013 کے سکیورٹی پلان پر عملدرآمد کیا جائے تو یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ 2013 میں تیار کیا جانے والے پلان کو 2018 کی صورتحال سے ہم آہنگ کیا جائے اور وہ اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دیں گے جو کہ تمام معاملات کا جائزہ لے گی۔

جسٹس ثاقب نثار
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کسی طرح بھی یہ نہیں چاہتی کہ قبیلے کے لوگوں کو غیر مطمئن واپس بھیجا جائے

انھوں نے ہدایت کی تمام انٹیلیجینس ادارے رپورٹ دیں کہ ہزارہ قبیلے کی ٹارگٹ کلنگ کس طرح کی جارہی ہے ۔

جسٹس اعجاز الاحسن کے سوال پر آئی جی پولیس نے کہا کہ صوبے کے 34 اضلاع میں سے 22 میں ایس پی رینک کے افسران نہیں۔

آئی جی پولیس کا کہنا تھا کہ افسروں کی کمی وجہ سے انہیں پولیسنگ میں بہت سارے مسائل کا سامنا ہے ۔

لائن

ہزارہ کون ہیں؟

  • ان کے آباؤاجداد کا تعلق منگولوں اور وسط ایشیائی خطے سے تھا
  • کہا جاتا ہے کہ یہ چنگیز خان کی فوج کے ساتھ 13ویں صدی میں اس علاقے میں آئے
  • ان میں سے اکثریت شیعہ مسلمان ہیں اور افغانستان اور پاکستان میں آباد ہیں
  • بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پانچ لاکھ سے زیادہ ہزارہ آباد ہیں
  • پاکستان کے قومی کمیشن برائے حقوق انسانی کے مطابق گذشتہ پانچ برس کے دوران 500 سے زیادہ ہزارہ افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے جبکہ ہزارہ ہزارہ تنظیموں کے مطابق ہلاک شدگان تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے۔
لائن

سماعت کے دوران عدالت میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے سیاسی و قبائلی عمائدین، خواتین، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں نشانہ بننے والے افراد کے لواحقین بھی موجود تھے۔

عدالت نے اس موقع پر ایک خاتون درخواست گزار کو سنا جس نے اپنے ایک رشتہ دار کی گمشدگی کی بارے میں درخواست دی تھی۔ چیف جسٹس نے پولیس اور دیگر حکام کو ہدایت کی وہ درخواست گزار سے رابطہ کریں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کسی طرح بھی یہ نہیں چاہتی کہ قبیلے کے لوگوں کو غیر مطمئن واپس بھیجا جائے ۔

ہزارہ قبیلے کے وکیل یہ بھی شکایت کہ ان کے عمائدین سے بھی سکیورٹی واپس لے لی گئی ہے۔ تاہم اس موقع پرڈی آئی جی کوئٹہ عبد الرزاق چیمہ نے کہا کہ ہم نے سکیورٹی واپس نہیں لی ہے۔

لائن

نسل کشی کیا ہے؟

  • نسل کشی سے متعلق بین الاقوامی کنونشن کے آرٹیکل دو کے مطابق کسی بھی مذہبی، لسانی، قومی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے اور قتل کرنے کا نام نسل کشی ہے۔
  • گروہ کے ممبران کو جسمانی اور ذہنی طور پر شدید نقصان پہنچانا۔
  • کسی بھی گروپ پر جان بوجھ کر ایسی پابندیاں لگانا جو اسے مکمل طور پر یا اس کے حصوں کی تباہی کا باعث بنے۔
  • ایسے اقدامات کرنا جن کے پیچھے یہ مقصد ہو کہ کسی گروہ کی افزائش نسل کو روکا جا سکے۔
  • کسی گروہ میں شامل بچوں کو زبردستی دوسرے گروہ میں شامل کرنا۔
لائن

عدالت نے ہزارہ قبیلے کے وکیل کو ہدایت کی وہ تمام متاثرین اور درخواست گزاروں کی درخواستوں پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کرکے عدالت کو پیش کریں تاکہ معاملے کا حل نکالا جاسکے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت حکم دیتی ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ حکم پر عملدرآمد ہو۔

چیف جسٹس نے ہزارہ قبیلے کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق 15 یوم میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے ازخود نوٹس کی سماعت رمضان المبارک کے بعد تک ملتوی کر دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہزارہ برادری ٹارگٹ کلنگ از خود نوٹس، میرے مطابق یہ نسل کشی ہے جس پر سوموٹو نوٹس لینا پڑا : چیف جسٹس

11 مئی 2018 (12:59)
ہزارہ برادری ٹارگٹ کلنگ از خود نوٹس، میرے مطابق یہ نسل کشی ہے جس پر سوموٹو نوٹس لینا پڑا : چیف جسٹس

کوئٹہ:سپریم کورٹ نے ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دور ان قانون نافذ کرنے والے اداروں کو15دن میں تمام معاملات کی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے آئی جی پولیس کو معاملہ دیکھنے کی ہدایت کی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ریاستی اداروں کے بغیر ہمارا وجود ممکن نہیں۔ ان کو دشمن نہ سمجھا جائے ۔حکومت ہزارہ برادری کو تحفظ نہیں دے سکتی تو انہیں جینے کا راستہ تو دے .سیکیورٹی پلان 2013 کو بہتر بناکر اس پر سختی سے عملدرآمد ہونا چاہیے .میرے نزدیک ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ نسل کشی ہے جس پر سوموٹو لینا پڑا۔جمعہ کو سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بینچ نے ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی. اس دوران سابق وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ ,ایف سی کے نمائندے، انسپکٹر جنرل بلوچستان اور ہزارہ برادری کے وکیل پیش ہوئے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہمارے پاس الفاظ نہیں کہ ان بدقسمت واقعات کی مذمت کرسکیں .میرے مطابق یہ نسل کشی ہے  جس پر مجھے ازخود نوٹس لینا پڑا۔سماعت کے دوران ہزارہ برادری کے وکیل افتخار علی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ہمیں جانی و مالی نقصان دیا جارہا ہے . ہمیں نوکریاں نہیں دی جاتی، ہمارے لوگ مجبور ہو کر آسٹریلیا چلے گئے۔اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی جی ایف سی کہاں ہیں؟ جس پر نمائندہ ایف سی نے جواب دیا کہ وہ اسلام آباد میں ہیں میں ان کے نمائندے کے طور پر موجود ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم نے ہزارہ برادری کے جان و مال کی حفاظت کرنی ہے.اس حوالے سے تمام ایجنسیاں رپورٹ دیں کہ کس طرح یہ سب کچھ ہورہا ہے۔دوران سماعت وکیل ہزارہ برادری نے بتایا کہ ان کے معتبرین سے بھی سیکیورٹی وپس لے لی گئی ہے  جس پر ڈی آئی جی کوئٹہ نے جواب دیا کہ ہم نے سیکیورٹی واپس نہیں لی ہے۔ ہزارہ برادری کے وکیل نے کہا کہ 20 برس دے ٹارگٹ کلنگ جاری ہے، آج تک کوئی گرفتاری نہیں کی گئی۔چیف جسٹس نے آئی جی پولیس سے استفسار کیا کہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے رپورٹ بنائی ہے؟ جس پر آئی جی پولیس کی جانب سے رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2012 سے اب تک مختلف مکاتب فکر کے 124 افراد، 106 سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور 20 آبادگار کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔آئی جی پولیس نے بتایا کہ گزشتہ 6 برسوں میں 399 ہزارہ برادری کے افراد، 36 سنی، 29 آباد گاروں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔رپورٹ کے مطابق اسی عرصے میں 344 سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور 19 اقلیتی برادری کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی جبکہ 2013 میں سب سے زیادہ 208 ہزارہ برادری کے افراد کی ٹارگٹ کلنگہوئی تاہم آئی جی پولیس کا عدالت میں بتایا کہ اب حالات میں کافی بہتری آگئی ہے، صوبے میں 4 ماہ کے دوران 9 ہزارہ برادری کے افراد کو نشانہ بنایا گیا جبکہ رواں سال 28 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شہید ہوئے۔اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکیورٹی فورسز کی شہادت کا ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ سے کیا تعلق ہے؟ اس پر آئی جی پولیس نے کہا کہ ہماری بہت محنت ہے، جس کی وجہ سے اعداد و شمار میں کمی آئی ہے. سی ٹی ڈی نے اغواءبرائے تاوان کے واقعات میں ملوث دہشت گردوں کو گرفتار کیا۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت ہزارہ برادری کو تحفظ نہیں دے سکتی تو انہیں جینے کا راستہ تو دے، یہ بتائیں کس سطح پر ان معاملات کے لیے بات کی جائے۔اس پر وکیل افتخار علی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمارے 2013 کے سیکیورٹی پلان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا، جس پر چیفجسٹس نے استفسار کیا کہ اگراس پلان پر عملدرآمد ہو تو مسئلہ حل ہو جائے گا؟ چیف جسٹس ثاقب نثار کے استفسار پر وکیل افتخار علی نے بتایا کہ اس پلان کو ازسر نو دیکھا جائے تو مزید بہتر ہوسکتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیکیورٹی پلان 2013 کو بہتر بناکر اس پر سختی سے عملدرآمد ہونا چاہیے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کس سطح پر ان معاملات کیلئے بات کی جائے جب تک یہ معاملات طے ہوں گے تو اس پر عملدرآمد کا طریقہ کار بھی ہمیں دیکھنا ہوگا۔سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہم ایک کمیٹی تشکیل دیں گے جو یہ معاملات دیکھے گی، آپ نے یہاں سے غیر مطمئن نہیں جانا، ہم آپ کو سارا دن سنیں گے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو15دن میں تمام معاملات کی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے آئی جی پولیس کو معاملہ دیکھنے کی ہدایت کردی۔دوران سماعت ہزارہ قبائل کے رہنما میجر (ر) نادر علی نے بتایا کہ ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی ) بنائی گئی، مگر اس کا اب تک کچھ نہیں پتا چل سکا۔اس موقع پر ایک متاثرہ خاتون نے لاپتہ اہل خانہ سے متعلق درخواست عدالت میں جمع کروائی. اس پر چیف جسٹس نے آئی جی پولیس، بریگیڈیئر ایف سی کو درخواست دیتے ہوئے انہیں آئی ایس آئی سے رابطہ کرنے کی ہدایت کردی۔ چیفجسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریاستی اداروں کے بغیر ہمارا وجود ممکن نہیں ,ان کو دشمن نہ سمجھیں۔عدالت میں سماعت کے موقع پر چیئرمین ہزارہ جرگہ قیوم چنگیزی نے بتایا کہ بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کے جن دہشت گردوں کو سزا ملی، ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ ان کے چہیتے ہیں۔قیوم چنگیزی نے کہا کہ ہمارے شہداءکے لواحقین کو ملازمتیں نہیں دی جا رہی ہیں ۔ہم رعایت نہیں قابلیت کی بناء پر نوکری چاہتے ہیں۔اس موقع پر عدالت نے ہزارہ برادری کیٹارگٹ کلنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.