کیا افغان صوبے فرح پر طالبان کے حملے میں ایران کا کردار تھا؟
وزیر دفاع افغانستان: جنگ فراه، جنگ مدیریت آب است
وزیر دفاع افغانستان جنگ فراه را “جنگ مدیریت آب” خوانده و گفته است که خصومتها زمانی در این منطقه آغاز شد که بند سلما ساخته شد و کارهای ابتدایی بند بخش آباد آغاز شد.
وزرای دفاع و داخله/کشور افغانستان همراه با رئیس امنیت ملی این کشور و فرمانده ماموریت حمایت قاطع در افغانستان امروز به شهر فراه سفر کردند. این شهر به تاریخ ۲۵ ثور/اردیبهشت به دست گروه طالبان سقوط کرد اما کنترل آن در کمتر از ۲۴ ساعت دوباره به دست دولت افتاد.
طارق شاه بهرامی، وزیر دفاع افغانستان، پس از شنیدن انتقادها و شکایتهای اهالی فراه، گفت: “جنگ در افغانستان ابعاد کلان/بزرگ دارد… هر دو همسایه ما به قوت تمام این جنگ را حمایت میکنند و شرکای منطقهای دیگر هم دارند. اکنون در پانزده ولایت افغانستان جنگهای شدید جریان دارد.”
آقای بهرامی گفت: “به گونه مطلق و دقیق، جنگ فراه، جنگ مدیریت آب است اما افغانستان در این جنگ برحق است و پیروز خواهد شد”.
ژنرال جان نیکلسون، فرمانده نیروهای حمایت قاطع در افغانستان نیز گفت “طالبان به حمایت کشورهای همسایه” به فراه حمله کردند.
- طالبان در فراه؛ کمآبی در ایران و ناامنی در افغانستان
- طالبان در فراه؛ نیروی هوایی آمریکا وارد عمل شد
- طالبان ‘با تحمل تلفات سنگین از فراه بیرون رانده شدند’
فراه در غرب افغانستان در کنار هرات و نیمروز، یکی از سه ولایت هممرز با ایران است.
بند کمال خان ولایت نیمروز، بند سلما در هرات و بند بخش آباد در فراه، از بزرگترین بندهای آبی در غرب افغانستان به شمار میرود که کار آنها در چند سال اخیر به گونه جدی آغاز و دنبال شد.
آبهای جاری این بندها به ایران میرسید و آب مناطق شرقی این کشور را تامین میکرد. مقامهای ایرانی پیش از این از بند سازیهای افغانستان انتقاد کرده و آن را از دلایل مهم کم آبی در کشورشان خواندند.
همچنین، هشت روز پیش از سقوط شهر فراه، جواد ظریف، وزیر خارجه ایران گفته بود که تلاشهای تهران برای توافق با افغانستان بر سرپرداخت حقآبه ایران از رودخانه هلمند به نتیجه نرسیده و هشدار داد که کشورش مجبور است دست به “عمل متقابل” بزند.
گسترش سریع قدرت طالبان در فراه در یکی دو سال اخیر گمانهزنیها در مورد احتمال حمایت کشورهای منطقه به ویژه ایران را از این گروه بیشتر ساخته است.
مقامهای افغانستان و فرماندهان نظامی آمریکا و ناتو در این کشور بارها ایران را متهم کردهاند که از طالبان حمایت میکند و برای این گروه تجهیزات نظامی و آموزش فراهم میکند. مقامهای ایرانی همواره این ادعاها را رد کردهاند.
معصوم استانکزی، رئیس امنیت ملی افغانستان در نشست امروزی گفت: “هر قدر که کشور همسایه یا کسی دیگر را ملامت کنیم، جنگ توسط کی انجام میشود؟ توسط خودمان… وظیفه ملی ماست که چگونه ذهنیتی را که جنگ در افغانستان مشروعیت ندارد و جهاد نیست، به میان آوریم.”
سقوط شهر فراه
ویس احمد برمک، وزیر داخله/کشور افغانستان نیز در نشست امروزی با مردم فراه گفت در سقوط شهر فراه خلاءها و کمبودیهایی در نظامیان وجود داشته، اما “نیروهای امنیتی با تمام نیروی خود جنگیدند”.
او افزود که اصلاحات و تغییراتی در بخش امنیتی فراه خواهد آمد و کسانی که جنگیدند، تقدیر خواهند شد و “کسانی که میدان جنگ را ترک کردند مطابق به قانون عسکری، مجازات خواهند شد”.
رئیس امنیت ملی نیز تایید کرد که دولت نیز در سقوط فراه، کمبودیهایی داشته است.
او برای تامین امنیت این ولایت، به بررسی اوضاع فراه، تجهیز بیشتر نیروها و حمایت و ایجاد خیزشهای مردمی در این ولایت تاکید کرد.
فرمانده نیروهای حمایت قاطع افغانستان نیز در نشست امروزی بار دیگر حمایتش را از نیروهای نظامی افغانستان اعلام کرد.
ژنرال جان نیکلسون از طالبان خواست به دعوت صلح افغانستان، پاسخ مثبت بدهند.
کیا افغان صوبے فرح پر طالبان کے حملے میں ایران کا کردار تھا؟
کچھ ماہرین یہ الزام لگاتے ہیں کہ ایران ترقیاتی منصوبوں میں رخنہ ڈالنے کے لیے طالبان کی مدد کر رہا ہے، جن میں ایک ڈیم بھی شامل ہے۔ کیونکہ ڈیم کی تکمیل سے ایران کی جانب پانی کا بہاؤ کم ہو سکتا ہے۔
واشنگٹن —
افغانستان کا مغربی صوبہ فرح حالیہ دنوں میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان شديد لڑائیوں کا مرکز رہا۔ افغان عہدے دار اس کا الزام ایران پر لگاتے ہیں۔
فرح کی صوبائی پولیس کے سربراہ جنرل فضل احمد شیرزاد نے بدھ کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ فرح میں ایران طالبان کی مدد کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران فرح میں طالبان کو براہ راست فنڈز اور ہتھیار دے رہا ہے ۔ فرح ایران کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ فرح میں مسلسل بدامنی اور افراتفری کو ایران اپنے مفاد کے طور پر دیکھتا ہے۔
افغان بارڈر پولیس کے سابق سربراہ جنرل گل نبی احمد زئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان کے لیے ایران کی حمایت اب کوئی راز نہیں ہے۔ وہ براہ راست ملوث ہے اور سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر فرح کی جنگ کی قیادت کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہمسائیوں روس، پاکستان اور ایران نے ایک ناپاک اتحاد قائم کر لیا ہے اور وہ ہمیں کمزور کرنے میں اپنا مفاد دیکھتے ہیں۔ وہ ہمارے معاشرے اور حکومت کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں اور انہیں افغانستان کے لیے امریکی مدد قبول نہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ امریکہ افغانستان میں موجود رہے۔
دوسری جانب یہ تینوں ملک اس الزام کی ترديد کرتے ہیں کہ وہ افغانستان کو غیر مستحکم بنانا چاہتے ہیں۔
کچھ ماہرین یہ الزام لگاتے ہیں کہ ایران ترقیاتی منصوبوں میں رخنہ ڈالنے کے لیے طالبان کی مدد کر رہا ہے، جن میں ایک ڈیم بھی شامل ہے۔ کیونکہ ڈیم کی تکمیل سے ایران کی جانب پانی کا بہاؤ کم ہو سکتا ہے۔
واشنگٹن میں موجود افغان أمور کے ایک ماہر خلیل پارسا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایران، افغانستان میں ڈیموں کی تعمیر سے تشویش میں مبتلا ہے۔ افغانستان کا عدم استحكام ایران کے مفاد میں ہے۔
ایران مغربی ہرات، فرح اور جنوبی مغربی نیمروز صوبوں میں ڈیموں کی تعمیر پر اپنے خدشات ظاہر کر چکا ہے۔
اس مہینے کے شروع میں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف پانی کے حقوق پر افغانستان کو خبردار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ افغانستان ایران کے مطالبات کو مسلسل نظر انداز کر رہا ہے۔
پچھلے سال افغانستان میں امریکی قیادت کے نیٹومشن کے سربراہ جنرل نکولسن نے کہا تھا ایران اور طالبان کے درمیان رابطے موجود ہیں۔
سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ایک تجزیہ کار انتھونی کارڈیزمین طالبان اور ایران کے درمیان تعلق کو ایک حادثاتی منصوبے کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قیاس آرائیاں بھی موجود ہیں کہ ایران، افغانستان کے اندر داعش کے بڑھتے ہوئے کردار پر قابو پانے کے لیے طالبان کی مدد کر رہا ہے۔