وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

الیکشن کمیشن نے کوئٹہ کے حلقے پی بی 26 میں ہونے والے انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس حلقے میں دوبارہ الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ “حساس اداروں” کی اس رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے جس میں حلقے سے منتخب ہونے والے احمد علی کوہزاد کی شناختی دستاویزات پر اعتراض کرتے ہوئے انہیں غیر ملکی قرار دیا گیا تھا۔ بدقسمتی بلکہ المیہ کہہ لیجیے کہ جولوگ اپنی بدترین شکست کو چھپانے کے لیے  کوہزاد کے انتخاب کو حساس اداروں کا کارنامہ قرار دیتے نہیں تھکتے تھے ۔آج وہی لوگ حساس اداروں کی رپورٹ پر مبنی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر خوشی سے گلے میں ڈھول لٹکائے بھنگڑا ڈالنے میں مصروف ہیں۔ خیران کی یہ خوشی اس لحاظ سے قابل فہم ہے کیونکہ عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعے ان کا وہ خواب چکناچور کردیا تھا جو وہ سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے دیکھا کرتے تھے اور جس کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے وہ الیکشن کے دنوں میں کسی کنبھی کی طرح اچانک زمین میں اگ آتے تھے۔ اب بدترین شکست کا غم بھلانا اتنا آسان بھی تو نہیں، جب ظرف بھی مکمل مفقود ہو۔ لیکن وہ نہیں جانتے کہ انتخابات میں اپنی شکست کا بدلہ لینے اور اپنی “ذاتی انا” کی تسکین کی خاطر، وہ جس طرح عوام کے زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں اس سے  وہ مسائل اور مشکلات کے شکارعلاقے کے مصیبت زدہ عوام کے ساتھ کس تاریخی خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں!!

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

پاکستان اور بلوچستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب ہزارہ قوم نے اپنے ووٹوں کے ذریعے اپنے دو نمائندوں کو صوبائی اسمبلی میں بھیجا تھا۔ اس سے یہ امید ہو چلی تھی کہ دو دہائیوں کے قتل عام اور مصائب سہنے کے بعد مسائل اور مشکلات میں گھرے اور بنیادی سہولیات سے محروم عوام کو ایسے نمائندے میسر آئیں گے  جن کے سامنے وہ دھڑلے سے اپنا مسئلہ بیان کر سکیں گے۔ جن کی کوششوں سے علاقے خصوصاً پی بی 26 میں پانی اور بجلی کا بحران حل ہوجائے گا۔ مدتوں سے بے روزگار کچھ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ تعلیم اور صحت کے مسائل پر ہر ممکنہ قابو پایا جائے گا۔ کھیل کے میدان بنیں گے۔ کسی لائبریری یا کمیونٹی ہال کی تعمیر ہوگی۔ لوگوں کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے مسائل حل ہوں گے۔ انہیں دفتروں کے دھکے کھا کھا کر بے عزت نہیں ہونا پڑے گا۔ انہیں ایسے نمائندے میسر آئیں گے جو ان کے حقوق کی خاطر لڑیں گے۔ جو شہر اور صوبے کی دیگر اقوام کے ساتھ مل کر محبت اور بھائی چارے کا پرچار کریں گے۔ جو شہر کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔
اگر ایسا ہوتا تو اس بات کے بھی قوی امکانات تھے کہ تاریخ میں پہلی بار ایک ہزارہ خاتون اسمبلی کی رکن بنتی جبکہ  سینیٹ میں بھی ہزارہ قوم کو نمائندگی مل جانا بعید از قیاس نہیں تھا۔ لیکن شکست خوردہ اور ٹھکرائے ہوئے افراد میں اتنا ظرف نہیں تھا کہ وہ اپنی شکست کو کھلے دل سے قبول کرلیتے اس لیے وہ اپنی شکست کا بدلہ پوری قوم سے لینے پر تلے ہوئے ہیں۔  بدقسمتی سے اب ان میں وہ لوگ بھی شامل ہو گئے ہیں جو اپنے ذاتی اختلافات کی گٹھڑیاں کندھوں پر اٹھائے بے سرو سامانی کی حالت میں کبھی ادھر تو کبھی ادھرلڑھکتے رہتے ہیں۔ اور ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو ماضی کے تمام دعؤں کو بھول کر کدال اور پھاوڑے اٹھائے گلشن کی بربادی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنی انا کی تسکین کر رہے ہیں۔  ان لوگوں کی مثال ان غلاموں جیسی ہے جو اپنی زنجیروں سے محبت کرتے ہیں۔ انہی لوگوں کے لیے کسی نے کہا تھا کہ یہ غلامانہ ذہنیت کے شکار وہ لوگ ہیں کہ اگر آسمان سے آزادی کی بارش ہونے لگے تو یہ سروں پرچھتریاں لے کرباہر نکلیں گے۔ یہ وہ لٹیرے ہیں جنہیں منزل کی جستجو نہیں ہوتی بلکہ یہ قافلے کا حصہ بننے کی صرف اس لیے اداکاری کرتے ہیں تاکہ موقع ملتے ہی قافلے کو اندر سے لوٹ کر رفو چکر ہوسکیں۔

حلقہ پی بی 26 کی قسمت کا مکمل فیصلہ ابھی نہیں ہوا کیونکہ اعلٰی عدالتوں کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سازشیوں اور شکست خوردہ عناصر کی طرف سے ستم دیدہ قوم کے پیکر پر لگایا جانے والا وہ گہرا گھاؤ ہے جس پر مرہم رکھنا انتہائی اہم ہے۔ ایک بات طے ہے کہ نئے انتخابات کی صورت میں بھی حلقے کے عوام انہیں لوگوں کو ووٹ دیں گے جنہوں نے نئی حلقہ بندیوں کے دوران اپنا خون پسینہ ایک کرکے ان کو اسمبلی میں نمائندگی دلوائی۔ جو ہر مشکل مرحلے پر ان کے درمیان رہے۔ جو دوبار الیکشن ہارنے کے باوجود میدان چھوڑ کر نہیں بھاگے۔ جنہوں نے کسی فلمی ولن کی طرح بڑھکیں مارنے کے بجائے عملی بطور پر محبت کا پرچار کیا۔ جو “برادر اسلامی ممالک” کی پراکسی وار کے سامنے سینہ تان کر کھڑے رہے۔ جنہوں نے ہمسایوں کے ساتھ محبت اور دوستی کے رشتے مضبوط کئے۔ جنہوں نے امن اور بھائی چارے کا پرچار کیا۔ جنہوں نے کوئٹہ کو خانہ جنگی سے بچائے رکھنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔

ہزارہ ٹاؤن کے عوام کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ کیا وہ کسی ایسے شخص یا اشخاص کو اپنی نمائندگی کا حق دے سکتے ہیں جنہوں نے انہیں حقارت آمیز القاب سے نوازا۔ جنہوں نے ان کی رائے اور ان کے ووٹوں کی توہین کی۔ جنہوں نے سازش کرکے ان کی شناخت کو خطرے میں ڈال دیا۔ جنہوں نے محض اپنی انا کی تسکین کی خاطر علاقے کے عوام کی مشکلات و مسائل سے گلو خلاصی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا. جنہوں نے این و آن کے نام پر قوم کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا اور جنہوں نے اپنے آپ کو “خوندے خانہ” اور دوسروں کو پل بھر کا مہمان قرار دیا!؟
خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن اپنے نا آسودہ خواہشوں کی تکمیل کی خاطر دوسروں کے خوابوں کو پامال کرنا کسی بھی طرح دانشمندی نہیں۔ یہ لطیفہ شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ہے جو آنکھوں میں مستقبل کے جھوٹے مگر سہانے خواب سجائے گلے میں ڈھول لٹکاکر بھنگڑے ڈالنے میں مصروف ہیں۔

کسی گاؤں کا چودھری فوت ہوا تو گاؤں کے مراثی کے بیٹے نے باپ سے پوچھا کہ اب چودھری کون بنے گا؟
چودھری کا بیٹا۔ باپ نے کہا۔
اگر وہ بھی مر گیا تو! بیٹے نے پوچھا۔
چودھری کا دوسرا بیٹا۔ مراثی نے کہا۔
اگر وہ بھی مر گیا تو! مراثی کے بیٹے نے پھر پوچھا۔
تو چودھری کا بھائی گاؤں کا چودھری بنے گا۔ مراثی نے کہا۔
اگر وہ بھی مر گیا تو!۔ بیٹے نے ایک بار پھر پوچھا۔
سارا گاؤں مر جائے لیکن تو نے کبھی چودھری نہیں بننا۔ مراثی نے جواب دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.