ارمانوں کا قتل نہ کرو

ارمانوں کا قتل نہ کرو
ایک بہن اپنے جواں بھائی کی لاش کے سرہانے کھڑی ہے۔ گم سم اور شاید سوچوں میں ڈوبی ہوئی۔ میرے لیے یہ منظر نیا نہیں۔ میں نے بہت سارے ایسے مناظر دیکھے ہیں جب بہن اپنے بھائی کی لاش، ماں اپنے جوان بیٹے کی لاش اور بچے اپنے ابو کی لاش کے پاس ایسے ہی گم سم کھڑے نظر ائے۔ میں نے تو ایسے مناظر بھی دیکھے ہیں جب ایک ماں پلاسٹک کی تھیلی میں پڑی اپنے جگر گوشے کے ٹکڑوں کو اسی گم سم انداز میں تکتی نظر ائی۔ پچھلے بیس سالوں میں میرے بچپن کے کئی دوست، کئی ہمسائے اور میرے کئی نزدیکی رشتہ دار نقاب پوش قاتلوں کے ہاتھوں خون میں لت پت ہوئے۔ میں نے ماؤں اور بہنوں کو بین کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے بھاگ کر پرامن دیشوں میں پناہ ڈھونڈنے کی خاطر لوگوں کو سرحدوں پر گولیوں کا نشانہ بننے کی خبریں سنیں۔ میں نے کئی قریبی دوستوں کے برف زاروں میں سردی سے ٹھٹھر کر مرنے کے قصے سنے۔ میں نے پناہ کی تلاش میں سرگردان بچوں اور عورتوں کو سمندروں میں مچھلی کی خوراک بننے کی داستانیں سنیں۔
ان داستانوں کو سن کر میں نے ہر بار اس بات کی تمنا کی کہ کاش یہ سارے سلسلے ختم ہوں۔ کاش ہر انسان کو سکون کا سانس میسر آئے۔ کاش کسی ماں، کسی بہن اور کسی اولاد کو اپنے کسی پیارے کی میت کے پاس یوں گم سم کھڑا نہ رہنا پڑے۔ لیکن ہر بار میری تمنا تمنا ہی رہی۔
ارمان لونی کا قتل انسانیت کا قتل ہے۔ ارمان کا قتل ماؤں اور بہنوں کے ارمانوں کا قتل ہے۔ اور معاف کیجیے، ہم اس کے قتل کو کسی انقلاب سے تشبیہ دے کر اور اسے شہید قرار دے کر لفاظی تو کر سکتے ہیں لیکن اس بہن، اس ماں اور ان بچوں کے دکھ کا مداوا ہرگز نہیں کر سکتے جن کو زندگی کی خوشیاں کشید کرنے کا اتنا ہی حق حاصل تھا جتنا مجھے اور آپ کو۔
انسان کو جینے دو۔ ان کے ارمانوں کا قتل نہ کرو!!!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.