کورونا وائرس، ایک امتحان
کورونا وائرس، ایک امتحان
کورونا وائرس کے خوف نے ہماری سماجی زندگی کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ خوف اتنا گہرا ہے کہ اگر ایک طرف دعاؤں پر یقین رکھنے والے حفاظتی ماسک کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں تو دوسری طرف پیاز اور ادرک کو کورونا وائرس کا شافی علاج قرار دینے والے بھی اس خوف سے جان نہیں چھڑا پا رہے۔ کچھ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ایران سے واپس آنے والے زائرین اور کاروباری حضرات کو پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ جن کے پیارے زیارت یا کاروبار کی غرض سے ایران گئے ہیں یا جو ایران سے لوٹتے ہوئے پریشانی کے عالم میں تفتان بارڈر پر پھنسے ہوئے ہیں، ان کے دلوں پر کیا قیامت گزر رہی ہوگی!۔ سکولوں اور مدارس کی بندش نے لوگوں کے خوف میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور سماجی سرگرمیاں ماند پڑنے لگی ہیں۔ ایک غیر یقینی صورت حال ہے جس میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور کوئی بھی یقین سے کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں۔
دوسری طرف سننے میں آیا ہے کہ ملک بالخصوص بلوچستان میں حفاظتی ماسک کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے اور لالچی افراد اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ہاں موجود ماسک کئی گنا قیمت پر فروخت کر رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے گویا چند روپوں کا یہ ماسک ہمارے سماج کے چہرے پر پڑے انسانیت کے نام نہاد ماسک کو نوچ نوچ کر اتار رہا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں کوڑھ کا موذی مرض وبا کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ تب بھی بہت سارے ایسے لوگوں کے چہروں سے نقاب اتر گئے تھے جنہوں نے اس مرض میں مبتلا اپنے انتہائی پیاروں کو پورے سماج سے الگ تھلگ کر کے کسی کونے میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کے لیے پھینک دیا تھا۔ بہت سارے لوگ اپنے خون کے رشتوں کو دور کسی ویرانے میں پھینک آئے تھے تاکہ وہ خود اس عذاب سے محفوظ رہ سکیں۔ تب سسٹر روتھ فاؤ نامی ایک کافرعورت اپنی پرسکون زندگی اور اپنا خاندان چھوڑ کر پاکستان آئی اور اس نے ان کوڑھی مریضوں کا ہاتھ تھاما اور شہر شہر گاؤں گاؤں گھوم کر لوگوں کو یہ احساس دلایا کہ ان مریضوں کو ہماری توجہ اور ہمدردی کی زیادہ ضرورت ہے۔
آج اس کورونا وائرس کے خوف نے ہماری معاشرتی اقدار کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور ہم خوف اور خود غرضی کے مارے خود ہی اپنے چہروں پر پڑے نقاب نوچ نوچ کر اتار رہے ہیں۔
یہ وائرس سچ میں ایک امتحان ہے۔ ہماری انسانیت کا امتحان، ہماری دانش، ہمارے تدبر، ہمارے جذبے، ہماری معاشرتی اقدار، ہمارے ایمان اور یقین، ہمارے بڑھک باز حکمرانوں کی صلاحیتوں، ہمارے تعلیمی معیار، ہماری طب اور سب سے بڑھ کر ہمارے انسانی اور سماجی رویوں کا امتحان۔
احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کریں تاکہ اس بیماری کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ لیکن جو لوگ انجانے میں اس عذاب کا شکار ہوئے ہیں یا خاکم بدہن، ہونے والے ہیں انہیں تنہا ہرگز مت چھوڑیں۔ انہیں حوصلہ دیں تاکہ وہ مضبوط قوت ارادی کے ساتھ اس عفریت کا مقابلہ کر سکیں۔ ہمیں سراسیمہ ہونے یا سنسنی پھیلانے سے اجتناب کرنا ہوگا کیونکہ اس طرح یہ مسئلہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھ سکتا ہے۔
یہ امتحان بھی گزر ہی جائے گا لیکن ہم اس میں تبھی سرخرو ہو سکتے ہیں جب ہم اسے ایک اجتماعی امتحان سمجھ کر مل کر اس سے نبرد آزما ہوں۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنی خود غرضی کے باعث کل ہم اپنے آپ سے بھی نظریں ملانے کے قابل نہ رہیں۔