قصہ ہائے ناتمام۔ ایک تعارف

قصہ ہائے ناتمام۔ ایک تعارف

مذکورہ کتاب میں تیس ایسے مضامین شامل ہیں جو میں نے 2013 اور 2015 کے درمیانی عرصے میں لکھے۔ ان میں سے کئی مضامین ڈان اردو سمیت بعض دیگر میگزینز پر شائع بھی ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب ملک بھر میں وحشت کا راج تھا اور کوئٹہ شہر کی سڑکیں روز ہزارہ مرد، خواتین اور بچوں کے خون سے لال ہو رہی تھیں۔ ان مضامین میں ان اور ان جیسے دیگر مقتولین کا ذکر ہے اور یہ کتاب منسوب بھی انہیں مقتولوں کے نام  ہے جنہیں شہید قرار دے کر دفنا دیا گیا۔ ان تحریروں میں آہیں بھی ہیں اور سسکیاں بھی، شکوے بھی ہیں اور دہائیاں بھی، سازشوں کی کہانیاں بھی ہیں اور سرد مہریوں کے قصے بھی، مایوسیوں کے تذکرے بھی ہیں اور امید، عزم و استقامت کے استعارے بھی۔ یہ قتل و غارت کی تاریخ کا ایک چھوٹا سا تاریک باب ہے جسے کتاب کے سانچے میں ڈھال کر دستاویز کی شکل دی گئی ہے۔ اس کتاب میں بعض تجزیے بھی شامل ہیں اور کچھ داستانیں بھی۔ بعض تحریروں کے ذریعے میں نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کی ہے جبکہ بعض مضامین میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ میں دنیا کو کس نظر سے دیکھتا ہوں یا یہ کہ میرے خیال یہ دنیا کیسی ہونی چاہیے۔
یہ کتاب میرے خیالات کا پرتو ہے جس میں میں نے الفاظ کی صورت میں اپنے خیالات کی ترسیم کی ہے۔ مجھے اس بات کے اعتراف میں کوئی عار نہیں کہ یہ کوئی اعلیٰ پائے کی کتاب ہرگز نہیں لیکن مجھے اس بات کا اطمینان ضرور ہے کہ یہ مضامین میں نے اس وقت لکھے جب ان کی ضرورت تھی اور یہ بھی کہ میں نے اپنی ان تحریروں میں معاشرے کی بعض ایسی دو رنگیوں پر نگاہ ڈالنے کی کوشش کی ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی ہماری بصارتوں سے اوجھل ہیں۔
کتاب کی اشاعت میں بہت سارے دوستوں کی محبتیں شامل ہیں جن کا تذکرہ کتاب کے مختصر دیباچے میں کیا جا چکا ہے۔ اظہار ڈاٹ نیٹ کی ٹیم اور پروگریسو اکیڈمک فورم کے دوستوں کی محنت اور محبت کا ذکر اس لیے بہت زیادہ لازم ہے کہ اگر ان کی معاونت بلکہ سرپرستی نہ ہوتی تو میرے ناتواں کاندھے شاید ان تمام جھمیلوں کا بوجھ نہ اٹھا پاتے۔ کتاب کے کل 168 صفحے ہیں۔ کچھ چھوٹی موٹی غلطیوں کے باوجود کتاب کی چھپائی قابل اطمینان ہے۔ پبلشر کے مطابق اس کتاب کی قیمت 400 یا کم از کم 350 روپے ہونی چاہیے تھی لیکن کیونکہ ہم سب دوستوں کا یہ متفقہ خیال تھا کہ کتاب کا مقصد منافع کمانا نہیں بلکہ ایک تلخ دور کی داستانوں کو دستاویز کی صورت میں محفوظ رکھنا ہے لہٰذا اسی سوچ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے پاکستان میں کتاب کی قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ یہی نہیں بلکہ دوستوں کا یہ بھی فیصلہ ہے کہ کتاب کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا تیس فیصد حصہ ترجیحی بنیادوں پر ایسی مد میں استعمال کیا جائے گا جو کسی زندہ انسان کے کام آ سکے۔
یقیناً یہ بہت بڑی رقم نہیں ہوگی بلکہ درحقیقت بہت ہی معمولی رقم ہوگی اور اس سے کسی شخص کی زندگی سنورنا تو دور کی بات، شاید اس کے ایک یا دو مہینوں کے کھانے کا خرچہ بھی بمشکل نکل آئے۔ لیکن ایسا کرکے ہم اپنے حصے کی شمع ضرور جلائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی طالب علم کو کتابیں مہیا کرکے یا اس کے ایک سمسٹر کی فیس بھر کر یا اس کے ہاسٹل کے تھوڑے بہت اخراجات ادا کرکے ہم اپنے شانوں پر رکھے پہاڑ جیسے بوجھ سے کچھ کنکر کم کر سکیں۔
قصہ ہائے ناتمام کی تقریب رونمائی 16 نومبر 2019، بروز ہفتہ میجر نادر علی آڈیٹوریم بمقام حسن موسیٰ گرلز کالج کوئٹہ منعقد ہورہی ہے۔ دوستوں کا مصمم ارادہ ہے کہ تقریب ہر حال میں ٹھیک پانج بجے شروع ہوگی۔ دوستوں نے پرانی روایات کو پاؤں تلے کچلتے ہوئے اس بات کا بھی فیصلہ کیا ہے کہ تقریب میں کوئی ایک مہمان خصوصی نہیں ہوگا نہ ہی صدر مجلس، بلکہ تقریب میں شامل تمام شرکا مہمانان خاص اور صدور مجلس ہوں گے۔
تقریب میں بلوچستان یونیورسٹی کے استاد اور صحافی پروفیسر منظور بلوچ، ایئر یونیورسٹی اسلام آباد کے استاد اور  The News International  کے کالم نگار فرمان کاکڑ اور نوجوان نسل کے شاعر اور لکھاری مبارک صابر کے علاوہ پروگریسو اکیڈمک فورم کے جنرل سیکریٹری علی رضا منگول کتاب سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔ جبکہ اظہار ڈاٹ نیٹ کے چیف ایڈیٹر طلا چنگیزی اور ڈپٹی چیف ایڈیٹر اکبر علی کے پیغامات پڑھ کر سنائے جائیں گے۔
اس تقریب میں معاشرے کے ہر فرد کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ آئیں مل کر اس دستاویز کو عام کریں۔

نوٹ: یہ مضمون پہلی بار اظہار پر شائع ہوا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.